ل
آشکارا ہو جہاں میں صورتِ شمس و قمر
دے نظامِ زندگی کو اپنے ہونے کی خبر
آسماں بن ابر بن بارش یا بن اک چشمِ تر
کوہ و صحرا پر برس اور بحر و دریا میں اتر
یہ جہاں لمحہ بلمحہ ہو رہا ہے نو بنو
ہر قدم منزل نئی ہے ہر نظر منظر دِگر
جیسے عالَم ہے تلاشِ آدمی میں مضطَرِب
جو ہو نقشِ آب و گِل میں نفسِ کامل مستِمَر
اس طلب میں تو بھی اشرف گامزن رہ دم بدم
مثل ِکرمک نہ گزر جا اس جہاں سے بے خبر
اشرف