عین ممکن ہے یہ منظر نہ ہو منظر کوئی
ہو زمیں آسماں کا اور ہی چکّر کوئی
جب گماں اور حقیقت میںصلح ہوتی ہے
کوکھِ قدرت سے جنم لیتا ہے پیکر کوئی
اب نمٹنا ہے مداروں کے مخمصوں سےمجھے
وقت کے ساتھ نئی شکل بدل کر کوئی
بُود و نابُود کے سنگم سے کہکشاؤں میں
نِت نئے آتے ہیں سُورج بھی ابھر کر کوئی
چرخیئ وقت پہ سیّارگاں کی ڈورِ نفیس
کھینچتی چنگِ نفس ہے جسے اکثر کوئی
عکس پہ عکس ہے پردوں کا برابر، گویا
خواب کا خواب میں اقبال تواتر کوئی