|
تنہائیوں کا سیل ِرواں پھیل رہا ہے
بربادیاں ہیں خوفِ زیاں پھیل رہا ہے
ہر سُو نظر آتے ہیں ہجوم ِبشر تشنہ
ہر سُو سرابِ آبِ رواں پھیل رہا ہے
وہ نیلگوں سے آسمانی رنگ کیا ہوئے
یہ سرمئی سا کیسا دُھواں پھیل رہا ہے
ہر سمت گونجتی ہے صدائے طبل مرے
ہر آن کشت و خوں کا سماں پھیل رہا ہے
ملک عدم ہوئے کیا حقائق کے نامہ بر!
جو شہر شہر وہم و گماں پھیل رہا ہے
اقباؔل کیا درختوں سے طائر اُڑا دئے
گلشن میں جو یہ شور ِسگاں پھیل رہا ہے