ہم اپنی ذات کے صحرا میں نکل جاتے ہیں
تو تپتی ریت میں سوچوں کی پگھل جاتے ہیں
شمار کرتے ہیں ہم جتنی دیر میں اعداد
تو اُتنی دیر میں اعداد بدل جاتے ہیں
شعور جب مرا خواب عدم میں چونکتا ہے
وجود آ کے مری آنکھوں کو مل جاتے ہیں
نئی جو ابتدا اک انتہا پہ ہوتی ہے
یہ خال و خد مرے اُس آن بدل جاتے ہیں
شعور و آگہی کی روشنی پھیلانے کو
ہمارے ساتھ سوالات کے حل جاتے ہیں
مسائلوں کی وہاں فصل اُگ نہیں سکتی
جہاں زمیں پہ مساوات کے ہل جاتے ہیں
یہ کائنات اک سانچوں کا کھیل ہے اقبال
پرانے سانچے نئے سانچوں میں ڈھل جاتے ہیں
وہ جھیلیں شب میں اترتے ہیں چاند تارے، وہاں
میں جاتا ہوں مری سوچوں کے کنول جاتے ہیں
پرانے ہوں بھلے ، سکے طلائی ہوں اقبال!
تو ہر نگر ہر اک بازار میں چل جاتے ہیں