|
پاکستان کے دانشور حلقوں میں وقتاً فوقتاً یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ کیا پاکستان کے بانیان ایک علیحدہ مسلمان ریاست کے حامی تھے یا نہیں۔ اس سلسلے میں تاریخ دان عائشہ جلال کا نقطہ نظر ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے ذہن میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کا تصور نہیں تھا: وہ ہندوستان کے اندر مسلمانوں کی با اختیار ریاستوں کے حق میں تھے۔ اسی طرح علامہ سر محمد اقبال کے پاکستان کے بارے میں اسی طرح کے افکار کے بارے میں متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی عائشہ جلال کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے قائد اعظم کے 1940کے صدارتی خطبے کا ذکر کرتے ہیں جس میں انہوں نے علیحدہ مسلمان ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بانیان پاکستان کے بیانات اور خطبات سے پاکستان کی اساس کے بارے میں کیا اخذ کیا جا سکتا ہے اور کیا اس سے موجودہ صورت حال کو تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
جہاں تک قائد اعظم محمد علی جناح کا تعلق ہے تو ان کے ایسے بیانات بھی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو ایک علیحدہ مسلمان ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے اور ایسے بیانات بھی ہیں جن سے یہ لگتا ہے کہ وہ ہندوستان کے اندر مسلمانوں کی خود مختار ریاستوں کے حامی تھے۔ اسی طرح ان کے پاکستان کو مذہبی ریاست بنانے کے بارے میں مختلف بیانات ہیں۔ ایک بات تو واضح ہے کہ وہ ایک سچے انسان ہوتے ہوئے دہرے معیاروں کے حامی نہیں تھے۔ ان کا اپنا طرز زندگی مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا اور اس بات کے کم امکانات ہیں کہ وہ اس طرح کی مذہبی ریاست کا تصور رکھتے ہوں جو ستر کی دہائی کے بعد وجود میں آئی۔ یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ ان کے ذہن میں آبادی کی وسیع پیمانے پر منتقلی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ غالباً ان کے خیال میں غیر مسلم پاکستان میں موجود رہیں گے اور شاید اسی لئے انہوں نے ایسے بیانات بھی دئیے جن کا مقصد مذہبی تفریق کو مٹانا تھا۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ نہ تو مسلم لیگ ایک مذہبی پارٹی تھی اور نہ ہی اس کا بیانیہ عقیدہ پرستی پر مبنی تھا۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ بانیان پاکستان نے ریاست کے بارے میں کوئی جامع نظریہ پیش نہیں کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد نہ صرف انتظامی اور سیاسی خلا تھا بلکہ نظریاتی خلا بھی موجودتھا جس کو قرارداد مقاصد کے ذریعے پر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے الٹ پنڈت جواہر لال نہرو کی سربراہی میں کانگریس کا سیکولرازم کا واضح نظریہ موجود تھا جسے فوری طور پر زیر عمل لایا گیا۔ کانگریس کے ایجنڈے پر زرعی اصلاحات پر بھی زور دیا گیا تھا جس کے بارے میں مسلم لیگ میں خاموشی تھی۔ لیکن اگر واپس مڑ کر دیکھیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ نہ تو پاکستان قائد اعظم کی شخصیت کا عکاس بن سکا اورنہ ہی ہندوستان بی جے پی کے عروج کے بعد سیکولرازم کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ لہٰذا قائد اعظم یا پنڈت جواہر لال نہرو کے جو بھی خیالات تھے وہ آج کے برصغیر کی نظریاتی صورت حال سے باالکل مختلف تھے۔ اس لئے ماضی کے رہنماؤں کے ستر سال پرانے بیانات کی بجائے اس امر کو دیکھنے کی ضرورت ہے برصغیر کی ریاستوں بالخصوص پاکستان کا ارتقا کس انداز سے ہوا۔
مسلم لیگ میں قائد اعظم کے علاوہ زیادہ تر لیڈرشپ جاگیردار طبقے پر مشتمل تھی جس کا کوئی واضح نظریہ نہیں تھا۔ ہندوستان کی جن ریاستوں میں پاکستان بنا ان میں مسلمان اکثریت میں تو تھے لیکن وہ زیادہ تر زرعی شعبے سے منسلک، کسان یا جاگیردار تھے۔ان مذکورہ علاقوں کے شہری آبادی میں مسلمان محض دستکار اور مزدور تھے۔ تاریخی طور پر ان طبقات میں جدید سیکولر خیالات کی نمو ناممکن رہی ہے۔ مزید برآں شہری علاقوں میں بورزواژی اور درمیانے طبقات غیر مسلموں بالخصوص ہندوئوں پر مشتمل تھے: مسلمانوں کا نہ کوئی تاجریا صنعتی طبقہ تھا اور نہ ہی پیشہ ور تنظیمیں تھیں۔ اس سیاق و سباق میں دیکھیں تو پاکستان کی طبقاتی ترتیب ایسی تھی کہ اس میں جدید سیکولر نظریات پنپ نہیں سکتے تھے۔ غرضیکہ پاکستان میں جاگیرداری دور کے مذہبی نظریے کا غالب آنا فطری عمل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود پاکستان کی مخالفت کے مذہبی جماعتوں (یا نظریات) نے نظریاتی خلا کو پر کرنا شروع کردیا۔ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان اورمجلس احرار جیسی مذہبی تنظیموں نے پاکستان بننے کے بعد ریاست کے بیانیے کے تعین کے عمل پر غلبہ حاصل کرنا شروع کر دیا۔ عالمی سامراجی طاقتیں بھی روس کے سوشلزم کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کو ایک پسماندہ جاگیرداری ریاست کے طور پر قائم رکھنا چاہتی تھیں۔ غرضیکہ پاکستان کی طبقاتی ترتیب اور عالمی طاقتوں کا ایجنڈہ ایسا تھا کہ پاکستان کو آخر کار مذہبی ریاست میں ہی ڈھلنا تھا قائداعظم کے خیالات جو بھی ہوں وہ پاکستان میں نظریاتی ارتقاپر حاوی نہیں ہو سکتے تھے۔
انگریز کی تربیت یافتہ فوج اور نوکر شاہی میں جزوی طور پر سیکولر دھڑے موجود تھے جن کی وجہ سے ستر کی دہائی تک ریاست کے مذہبی بیانیے کے خلاف مزاحمت موجود تھی۔ لیکن ستر کی دہائی کے آغاز سے ہی مذہبی بیانیوں نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی تھیں جس کااظہار ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامائزیشن کے فیصلوں سے واضح ہوجاتا ہے۔ مذہبی بیانیہ کا 1977کی قومی اتحاد کی تحریک میں غلبہ مکمل ہو چکا تھا جس کو جنرل ضیاء الحق نے آگے بڑھایا۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اب جبکہ پاکستان میں ریاستی بیانیہ مکمل طور پر مذہبی ہو چکا ہے، ملک میں ایسے طبقات پیدا ہو چکے ہیں جن میں جدید افکار پنپ سکتے ہیں: اب پاکستان میں وہ تمام تر طبقات پیدا ہو چکے ہیں جو 1947سے پہلے ہندوئوں اور دیگر غیر مسلموں پر مشتمل تھے۔ اب ریاست کے مذہبی بیانیہ کے خلاف ٹھوس عوامل معرض وجود میں آچکے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مذہبی بنیاد پرستی سے دوری اور جماعت اسلامی کا زوال مستقبل میں روشن خیالی کے آثار ہیں۔
Shared by Dr. S. Akhtar Ehtisham