A Ghazal by Iqbal Sheikh
چڑھا ہوں قرض کی صُورت تو پھر سرسے اُتار دے
لگا کر داؤ میرا پیار کی بازی میں ہار دے
ابھر سکے نہ کوئی نقش نہ چہرہ ترے سوا
تُو اپنا عکس میرے آئینے میں یوں اُتار دے
شکستہ پا تھا پیچھے رہ گیا ہوں کارواں سے میں
پتہ کچھ قافلے کا تُو ہی اب گرد و غبار دے
بچا نہ نقد میری جیب میں کچھ زندگی میری
جو ہو ممکن تو جینے کیلئے تھوڑااُدھار دے
تمناؤں کے صحراؤں میں تشنہ پھر رہا ہوں میں
سرابوں کی رفاقت دیکھئے کس وقت مار دے
محبت سے بڑھا ہےہاتھ جب اُس کا تری جانب
تو پھر اقباؔل تُو بھی دوستی کو اعتبار دے