….
Shared by Iqbal Sheikh!
And God Created Woman
مگر کیا خدا مرد ہے؟
سنۃ 1956ء میں فرانسیسی فلم “اور خدا نے عورت کو بنایا” ریلیز ہوئی ۔ اسی فلم سے بریجٹ بارڈونامی قاتل حسینہ پہلی بار عالمی سینما میں متعارف ہوئی اور ساٹھ کی دہائی کی جنسی علامت
(sex symbols)
کے طور پر ابھری۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس فلم نے امریکی سینما کا رخ ہی بدل دیا جس نے میرلین مونرو کو متعارف کرا کر فرانسیسیوں کو بھرپور جواب دیا۔
اس فلم پر کیتھولک چرچ نے کافی شور مچایا، دراصل یہ فلم کسی بھی طرح سے فرانسیسی سینما کی نمائندگی نہیں کرتی تھی، نہ کہانی اور نا ہی اس کا انداز تاہم بارڈو کا شوہر راجر ویڈیم جو فلم کا ڈائریکٹر تھا اس فلم میں اپنی بیوی کا حسن اچھی طرح نمایاں کرنے میں کامیاب رہا، اس خوش قسمت آدمی نے یکے بعد دیگرے دنیا کی خوبصورت ترین عورتوں سے شادی کی، بریجیٹ بارڈو کے علاوہ اس نے جین فونڈا
اور کینڈی ڈارلنگ سے بھی شادی کی اور کئی سال کیتھرین ڈینیوکے ساتھ مفت میں گلچھرے اڑاتے ہوئے گزارے۔
بہرحال ہم اب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر خدا نے عورت کو بنایا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ مرد ہے؟
تاریخ میں زیادہ تر مذاہب نے خدا کو تمام تر مردانہ خصوصیات سمیت ایک بھرپور مرد کے طور پر پیش کیا، اس خدا کی داڑھی تھی، مسل تھے اور بعض اوقات جنسی اعضاء بھی، ابراہیمی یا توحیدی کہلائے جانے والے مذاہب جن میں یہودیت، اسلام اور عیسائیت شامل ہیں خدا ہمیشہ ایک مرد سے ملتا جلتا رہا۔
مذہبی فکر خدا کی جنس کے حوالے سے کافی خلفشار کا شکار رہی ہے خاص طور سے یہ ابراہیمی مذاہب جب ان کا سامنا کلاسیکی یونانی فلسفے سے ہوا، یونانیوں کے ہاں خدا مرد و زن پر مشتمل تھے اور ہر ایک کا اپنا ایک کام تھا مگر ان ابراہیمی مذاہب نے ان سب خداؤوں کو ایک ہیرو میں مدغم کرنا چاہا۔مرد و زن، خیر وشر حتی کہ وہ مسخ شُدہ شکل سامنےآئی جو اب ہمارے سامنے ہے۔وحید یا یکجائی کے خیال کی کنفیوزن میں ان تینوں مذاہب نے خدا کو بیچ والا بنا کر بے جنس کردیا یعنی نا مرد اور نا ہی عورت۔
عیسائیوں کی اس ویب سائٹ پر اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے:
سوال: کیا خدا مرد ہے یا عورت؟
جواب: مقدس کتاب میں غور کرنے سے ہم پر دو حقیقتیں منکشف ہوتی ہیں: پہلی حقیقت یہ ہے کہ خدا روح ہے، اس کی کوئی صفات یا بشری حدود نہیں ہیں، دوسری حقیقت یہ ہے کہ تمام دلائل اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ خدا نے خود کو انسانیت کے سامنے ایک مرد کی شکل میں ظاہر کیا، شروع میں ہمیں خدا کی حقیقی نیچر کو سمجھنا چاہیئے، خدا ایک شخص ہے، یہ واضح ہے کہ اس کے پاس ایک شخص کی سی صفات ہیں جیسے عقل، ارادہ سمجھداری اور جذبات، اور خدا انسانوں سے رابطہ میں رہتا ہے اور ان سے تعلقات قائم رکھتا ہے اور یہ کہ خدا کے ذاتی اعمال مقدس کتاب کے ذریعے واضح ہیں۔
اس جواب سے پتہ چلتا ہے کہ عیسائیت خدا کو مرد سمجھتی ہے کیونکہ اس کی تجلی مرد کی صورت ہوئی نہ کہ عورت کی صورت میں ۔ایک اور جگہ کسی نے سورہ اخلاص کا یہ پوسٹ مارٹمکیا ہے:
خدا نے اپنے بارے میں کہا ہے کہ اس نے ولادت نہیں کی (لم یلد) اور نا ہی اس کی ولادت ہوئی (ولم یولد) ولادت عورت کی خصوصیات میں سے ہے چنانچہ خدا عورت کی صنف میں سے ہے کیونکہ وہ قابلِ ولادت ہے اور چونکہ اس نے ابھی تک ولادت نہیں کی (لم یلد) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مستقبل میں ولادت نہیں کرے گا خاص طور سے سورت کا خطاب ماضی میں ہے۔
بہرحال مسلمان خدا کی جنس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے کہ ہی (یا شی) نا مرد ہے اور نا ہی عورت اور اس کے جیسا کچھ نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پھر خدا کے تمام ننانوے نام مذکر کی صفت میں کیوں آئے ہیں اگر وہ مرد نہیں ہے تو؟ کیا سوواں نام مؤنث تھا اور ہمیں نہیں بتایا گیا؟
ریت کے خدا کی جنس کے تعین میں یہ تضاد اور انکار کیوں ہے؟ میں نے اس مدعے کے تضادات پر کافی غور وخوض کیا ہے، کیا اس لیے کہ خدا کامل اور پرفیکٹ ہے اور کمال مرد کی صفات میں سے ہے کیونکہ عورت کا کمال آدھا ہے اور وہ مرد کی نصف ہے؟
میرا خیال ہے کہ محمدی دعوت کے آغاز میں خدا واضح طور پر ایک مرد تھا مگر یونانی فلسفے کے اثر کی وجہ سے مؤمنین خدا کی مردانہ حیثیت سے دستبردار ہوگئے اور اسے ایک “بے جنس” ہستی بنا دیا گیا تاکہ اس کے کمال کو بغیر تضادات کے مکمل کیا جاسکے۔ مگر کیا اس سے مسئلہ حل ہوگیا؟
سورۃ الانعام کی آیت 101 میں فرمایا گیا ہے کہ:
بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمۡ تَکُنۡ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ ؕ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ
وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اسکے اولاد کہاں سے ہو جبکہ اسکی بیوی ہی نہیں اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔
تو پھر “اسکے اولاد کہاں سے ہو جبکہ اسکی بیوی ہی نہیں” کا کیا مطلب ہے؟ یہی کہ وہ مرد ہے اور اگر وہ کوئی بیوی اختیار کر کے اس کے ساتھ سیکس کرے تو اس کے ہاں اولاد ہوسکتی ہے! یوریکا.. وہ یقیناً مرد ہی ہے، سورہ اخلاص میں “لم یلد” سے اس کی مراد یہ تھی کہ وہ مرد ہے اس لیے اس کے ہاں ولادت نہیں ہوتی مگر وہ ابھی تک کنوارہ ہے اور اس نے شادی نہیں کی ہے
لہذا جب وہ شادی کرے گا تب اس کے ہاں اولاد ہونا عین ممکن ہے۔
مؤمنین جب خدا کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو ہمیشہ مذکر ضمائر کا ہی استعمال کرتے ہیں، وہ اسے ہمیشہ “ہو” کہتے ہیں ناکہ “ہی” اور اگر خدا بغیر جنس کے ہے تو کبھی مذکر (ہو) اور کبھی مؤنث (ہی) کا استعمال کیوں نہیں کیا جاتا؟ یا لغت میں ایک اور ضمیر شامل کیوں نہیں کیا جاتا؟یقین کریں اگر کوئی خدا کے لیے مذکر کی بجائے مؤنث کا ضمیر استعمال کرے تو مؤمنین کو سخت غصہ آجائے گا، مگر کیوں؟ اس کی صرف دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں:
اول: یہ غصہ اس بات کی دلیل ہے کہ مؤمنین خدا کو مرد سمجھتے ہیں اور اسے مؤنث ضمیروں سے مخاطب کرنے کو اس کی توہین سمجھتے ہیں۔
دوم: انہیں واقعی یقین ہے کہ خدا بے جنس ہے، مگر اس کی تانیث کو وہ اس کی توہین سمجھتے ہیں، ان کے لیے خدا کا مذکر ہونا ایک اچھی اور مثبت بات ہے مگر اس کی تانیث ان کے ہاں منفی اور نا قابلِ قبول ہے۔
جو بھی ہو، دونوں صورتیں اپنے اندر عورت کی تذلیل اور توہین لئے ہوئی ہیں، اور اس سے مؤمنین کا یہ دعوی کہ “اسلام نے عورت کو عزت دی ہے” پاش پاش ہوجاتا ہے۔
اصل موضوع کی طرف پیش قدمی سے پہلے ایک نظر اسلام میں عورت کے مقام پرڈالنا بہت ضروری ہے۔
اسلام میں عورت کا مقام
عصر حاضر میں اسلام میں عورت کے معاشرتی و سماجی کردار کے حوالے سے کافی سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور مسلم دنیا خود اس معاملہ میں ابہام کا شکار ہے۔ ایک سوچ کو افغانستان میں طالبان نے رائج کیا اور اس کو عین اسلامی بتایا۔ لیکن مسلم دنیا کے ایک طبقہ نے اس سوچ کو اسلامی تعلیمات سے متصادم قرار دیا۔ اسی طرح سعودیہ، ایران اور چند دیگر عرب ممالک میں بھی عورت کے معاشرتی اور سماجی کردار کے حوالے سے سنجیدہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ طالبان، عربوں اور سعودیہ کے اسلامی سماجی ڈھانچے میں عورت کے استحصال پر اٹھنے والے سوالات کے جواب میں لبرل مسلمان طبقہ اس استحصال کو پشتون و عرب روایات سے جوڑ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اسلامی تعلیمات سے اس استحصال کا کوئی تعلق نہیں اور عورتوں پہ جو پابندیاں عائد ہیں وہ طالبان اور عرب کی خود ساختہ پابندیاں ہیں۔
آیئے! ہم جاننے کی کوشش کریں کہ عورت کے معاشرتی و سماجی کردار کے حوالے سے پیغمبرِاسلام خود کیا سوچ رکھتے تھے اور اس موضوع پر امت کے لیے ان کے کیا احکامات و ارشادات موجود ہیں۔ جبکہ طالبان اور عرب معاشروں میں عورت کے استحصال کا حقیقی ذمہ دار کون ہے؟
جنتی کون ہے؟
حضرت انس سے روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایا کہ “آج تم کو جنتی عورت کے بارے میں نہ بتا دوں وہ کون ہے؟ ہم نے کہا ضرور تو آپ نے فرمایا! شوہر پر فریفتہ ہونے والی، زیادہ بچے جننے والی، جب یہ غصہ ہو جائے، یا اسے کچھ برا بھلا کہہ دیا جائے، یا اس کا شوہر ناراض ہو جائے، تو یہ عورت (شوہر کو راضی کرتے ہوئے) کہے میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں ہے میں اس وقت نہ سووٴں گی جب تک کہ تم خوش نہ ہو جاوٴ۔” (ترغیب ج ٣ ص ٣٧)
صالح اور نیک عورتیں بہت کم ہیں
بی بی عائشہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا “مومنہ عورت کی مثال عورتوں میں ایسی ہے جیسا کہ کووٴں میں وہ کوا جس کے ایک پر میں سفیدی ہو۔” (مطالب عالیہ ج ٢ ص ٢١)
عورتوں کا جہاد گھریلو کام ہے
حضرت انس سے روایت ہے کہ:”عورتوں نے آپ ﷺ سےکہا کہ اے رسول اللہ جہاد کرنے سے مرد تو فضیلت لوٹ لے گئے۔ ہم عورتوں کے لیے بھی کوئی عمل ہے جس سے جہاد کی فضیلت ہم پاسکیں۔ آپ نے فرمایا ہاں گھریلو کام میں تمہارا لگنا یہ جہاد کی فضیلت کے برابر ہے۔” (مطالب عالیہ ج ٢ ص ٣٩)
شوہر کی اطاعت ہر حال میں لازم
بی بی عائشہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “اگر آدمی اپنی بیوی کو حکم دے کہ وہ جبل احمر (پہاڑ) کو جبل اسود کی طرف منتقل کرے۔ یا جبل اسود (پہاڑ) کو جبل احمر کی طرف منتقل کرے، اس کا حق ہے کہ وہ ایسا کرے۔” (ابن ماجہ، مشکوہ، ترغیب)
حضرت انس سے روایت ہے کہ: “ایک شخص گھر سے باہر جاتے ہوئے اپنی بیوی سے کہہ گیا کہ گھر سے نہ نکلنا۔ اس عورت کے والدین گھر کے نچلے حصہ میں رہتے تھے اور وہ گھر کے اوپر رہا کرتی تھی۔ والد بیمار ہوئے تو اس نے نبی پاک کی خدمت میں بھیج کر عرض کیا اور معلوم کیا (کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر والد کی تیمارداری کر آئے)۔ آپ نے فرمایا اپنے شوہر کی بات مانو چنانچہ اس کے والد کا انتقال ہوگیا پھر اس نے نبی پاک کے پاس آدمی بھیج کر معلوم کیا، آپ نے فرمایا شوہر کی اطاعت کرو۔ پھر نبی پاک نے اس عورت کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ اللہ نے تمہارے شوہر کی اطاعت کی وجہ سے تمہارے والد کی مغفرت کردی۔” (مجمع ج ۴ ص ٣١٦)
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول پاک نے فرمایا: “اگر میں کسی کو سجدہ کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ شوہر کو سجدہ کرے۔“(ترمذی ج ١ ص ١٣٨)
حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ ﷺ نے فرمایا: “جب شوہر اپنی عورت کو بسترے پر بلائے اور عورت نہ جائے تو فرشتے اس عورت پر صبح ہونے تک لعنت کرتے رہتے ہیں۔” (بخاری ج ٢ ص ٢٨٢)
حضرت طلق سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”مرد جب اپنی ضرورت سے عورت کو بلائے تو عورت فورا آ جائے چاہے وہ تنور پر کیوں نہ بیٹھی ہو۔“(ترمذی، ترغیب)
حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”عورت خدا کا حق ادا کرنے والی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ شوہر کا پورا حق ادا نہ کرئے۔ اگر شوہر اسے بلائے اور وہ اونٹ کی پالان پر ہو تب بھی وہ انکار نہیں کرسکتی۔“(طبرانی، ترغیب)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: “کسی عورت کے لیے درست نہیں کہ وہ شوہر کی موجودگی میں روزہ (نفلی روزہ) رکھے ہاں مگر اس کی اجازت سے۔ اگر اس نے (بلا اجازت) روزہ رکھا تو بھوکی پیاسی رہی اور قبول نہ کیا جائے گا۔” (مجمع ج ۴ ص ٣١٠)
حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”جب عورت اپنے شوہر سے (غصہ کی وجہ سے) الگ بستر پر رات گزارے تو اس پر فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ عورت شوہر کے پاس آجائے۔“(بخاری۔ مسلم)
شوہر سے طلاق مانگنے پر جنت حرام
حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ نبی پاک نے فرمایا:”جو عورت اپنے شوہر سے بلا کسی ضرورت شدید و پریشانی کے طلاق مانگے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔“(ابن ماجہ، ابوداود، ترمذی)
خُلع کا مطالبہ کرنے والی عورت منافق ہے
ضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:”شوہر سے علیحدگی چاہنے والی خُلع کا مطالبہ کرنے والی عورت منافق ہے۔” (مشکوہ۔ نسائی)
شوہر کی بلااجازت نکلنے پر لعنت
ابن عمر سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”جب عورت شوہر کی ناراضگی میں نکلتی ہے تو آسمان کے سارے فرشتے اور جس جگہ سے گزرتی ہے ساری چیزیں انسان جن کے علاوہ سب لعنت کرتے ہیں۔“(طبرانی۔ ترغیب)
کثرت سے بچے جننے والی عورت
حضرت معقل سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:”تمہاری عورتوں میں بہتر وہ ہے جو خوب محبت کرنے والی اور کثرت سے اولاد جننے والی ہو۔” (بیہقی۔ کنز۔ جامع صغیر)
عبداللہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”خوبصورت بانجھ عورت کو چھوڑ دو اور کالی بچے جننے والی عورت کو اختیار کروکہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا۔” (اتحاف المہرہ۔ ابویعلی)
عورت کا گھر سے باہر نکلنا
ابن عمر سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “عورت پردہ ہے اور عورت جب گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانکتا ہے۔ عورت کے یے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ تقرب یہ ہے کہ وہ گھر کے کسی گوشہ میں رہے۔” (ترمذی۔ طبرانی۔ کنز)
ابن عمر سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”عورتوں کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں مگر شدید ضرورت کی بنیاد پر۔” (طبرانی ۔ کنزالعمال)
عورتوں کا تنہا سفر کرنا
ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:”کوئی عورت سفر نہ کرے ہاں مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو۔” (طحاوی۔ بخاری)
بناوٴ سنگھار کرنے والی عورتیں
میمونہ بنت سعدی سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا: “جو عورت اپنے شوہر کے علاوہ زینت و سنگھار کر کے چلی، قیامت کے دن سخت ظلمت و تاریکی میں رہے۔” (ترمذی۔ جامع صغیر)
ابوموسی سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “جب عورت عطر لگا کر لوگوں کے پاس گزرے تاکہ لوگ اس کی خوشبو سے محظوظ ہوں تو وہ زانیہ ہے۔” (کنزالعمال)
عورت کے لیے دو ہی محفوظ مقام ہیں
ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: “عورتوں کے یے دو ہی مقامات قابل ستر ہیں۔ ایک شوہر کا گھر اور دوسرا قبر۔” (کنزالعمال)
شوہر کے بھائی کے متعلق حکم
عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “خبردار عورتوں کے پاس آنے جانے سے بچو۔ ایک انصاری نے پوچھا دیور کے متعلق کیا حکم ہے (وہ بھابھی کے پاس نہ آئے جائے)۔ آپ ﷺم نے فرمایا وہ تو موت ہے۔” (بخاری)
گھر کی کھڑکیاں، روشندان اور سوراخ
امام غزالی سے مروی ہے کہ حضرات صحابہ گھر کی کھڑکیاں اور روشندان جس سے باہر نظر آئے بند فرما دیا کرتے تھے تاکہ عورتیں باہر مردوں کو نہ جھانک سکیں۔
حضرت معاذ بن جبل نے دیکھا کہ ایک عورت گھر کی کھڑکی سے باہر مردوں کو جھانک رہی ہے تو اسے انہوں نے پیٹا۔ (اتحاف السادہ۔ شرح احیاء)
قبروں، مزاروں پر جانے والی عورتیں
ابن عباس سے مروی ہے کہ:” آپ ﷺ نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو قبروں پر جانے والی ہیں۔” (ابو داود۔ ابن ماجہ)
عبدالرحمن بن حسان سے مروی ہے کہ: “آپﷺ نے مزاروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔” (ابن ماجہ)
عورت اور جوتی کا استعمال
ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ: “بی بی عائشہ سے پوچھا گیا عورتیں جوتا پہن سکتی ہیں؟ انہوں نے کہا رسول پاک نے لعنت فرمائی ہے ان پر جو عورتیں مرد کی مشابہت اختیار کرتی ہیں۔” (ابو داود۔ مشکوہ)
عورتوں کا پاجامہ اور ٹخنے
انس بن مالک سے مروی ہے کہ: “آپﷺنے بی بی فاطمہ کو ایڑی کی جانب سے ایک بالشت کی اجازت دی اور فرمایا عورتوں کا کپڑا اتنا لٹکے۔ یعنی ٹخنے کو چھپائے۔” (مجمع الزوائد)
عورت کے لیے امارت و دنیاوی عہدہ
حضرت ابوبکرہ سے مروی ہے کہ: “جب رسول اللہ کو خبر ملی کہ اہل فارس نے کسری کی بیٹی کو تخت شاہی پر بٹھایا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے اپنا حاکم اور والی عورت کو بنایا۔” (بخاری۔ ترمذی۔ مشکوہ)
عورتیں اور جہنم
ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “ننانوے(99)عورتوں میں سے ایک عورت جنت میں جائے گی اور باقی جہنم میں۔” (ابوالشیخ۔ کنزالعمال)
عمران بن حصین سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “جنت میں رہنے والی عورتیں کم ہوں گی (یعنی مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ جہنم میں ہوں گی)۔” (بخاری)
عورت اور فتنہ
اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “میں نے اپنے بعد عورتوں کے فتنہ سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں چھوڑا جو مردوں کو تکلیف دہ ہو۔” (مشکوہ)
ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا: “دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو۔ بنی اسرائیل میں پہلا فتنہ عورتوں کے سبب سے تھا۔” (مشکوہ)
عورت اور نحوست
ابن عمر سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “نحوست تین چیزوں میں ہے۔ عورت، گھر اور گھوڑے میں۔” (مشکوہ۔ ابن ماجہ)
عبداللہ ابن عمر سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا: جب تم میں سے کوئی بیوی، خادم یا جانور حاصل کرے تو اسکی پیشانی پکڑ کر کہے: “اے اللہ میں اس کی بھلائی آپ سے مانگتا ہوں۔ آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس کے شر سے اور اس کی خلقت و طبیعت کے شر سے۔” (ابن ماجہ)
عورت کو مارنا پیٹنا
اشعث بن قیس سے روایت ہے کہ: “حضرت عمر نے دعوت کے روز جب رات ڈھلنے لگی تو آپ نے کھڑے ہو کر اپنی عورت کو مارا۔ میں ان دونوں کے درمیان آگیا۔ جب وہ اپنے بستر پر جانے لگے تو مجھ سے کہا: یاد رکھ! نبی ﷺ فرماتے تھے کہ مرد سے اپنی بیوی کو مارنے کے متعلق سوال نہ کیا جائے گا۔” (ابن ماجہ)
عورت حجاب اور مساوات
یہ درست نہیں کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کے ماننے والے اپنی عورتوں کے لیے حجاب اور دوپٹے کا اہتمام کرتے ہیں۔
یہ روایت میسوپوٹیمیا، سومریوں، بابلیوں، آشوریوں اور قدیم یونان میں بھی پائی جاتی تھی کہ خواتین گھر سے نکلتے وقت سر ڈھانپا کرتی تھیں، سر کو کھلا چھوڑنا ایک کبیرہ گناہ سمجھا جاتا تھا جو زنا کے برابر تھا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والی عورت کو سخت سزا دی جاتی تھی۔
یہودی شریعت کی تکمیل کے لیے بھی تلمود اور مدراش میں خواتین کے سر ڈھانپنے کے احکامات موجود ہیں۔
حجاب ایک قدیم یہودی روایت ہے جو بعد میں ایک مذہبی فریضہ بن گئی، دونوں صورتوں میں یہ بات مُسلم ہے کہ یہ روایت قدیم یہودی معاشروں میں بدرجہ اتم موجود تھی۔
تلمود یہودی خواتین پر حجاب فرض کرتا ہے جس کے بغیر انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں، اور شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ خلاف ورزی کرنے پر وہ اپنی بیوی کو بغیر کسی قسم کے اخراجات ادا کیے طلاق دے دے، یہودی علماء کے نزدیک عورت کا سر ننگا کرنا ایسا ہی ہے گویا اس نے اپنے جنسی اعضاء نمایاں کردیے ہوں۔
ڈاکٹر مناحیم بریر جو جامعہ یشیوا میں توراتی ادب کے استاد ہیں اپنی کتاب “ربانی ادب میں یہودی عورت کا مقام” میں کہتے ہیں کہ خواتین کا سر ڈھانپنا یہودیوں کے ہاں ایک پختہ روایت تھی جو بعض اوقات پورے چہرے پر محیط ہوتا تھا اور دیکھنے کے لیے محض ایک آنکھ کے لیے ایک سوراخ چھوڑا جاتا تھا، جلالیب کی آیت کی حضرت ابن عباس بھی کچھ ایسی ہی تفسیر کرتے ہیں۔
ذیل میں کچھ قدیم یہودی علماء کے اقوال نقل ہیں:
“بناتِ اسرائیل کی یہ شان نہیں کہ وہ ننگے سر باہر نکلیں”
“وہ مرد ملعون ہے جو اپنی عورت کا سر ننگا چھوڑے”
“جو عورت اپنے بالوں کو ذاتی زینت بنائے وہ فاقوں کا سبب بنتی ہے”
یہودی شریعت میں نمازیں اور دعائیں کسی ننگے سر کی عورت کی موجودگی میں قبول نہیں ہوتیں کیونکہ اسے عریانیت سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سر کھلا چھوڑنے کی پاداش میں یہودی خواتین کو چار سو زوزیم (100 شیکل) جرمانہ کیا جاتا تھا، اس کے برعکس فاحشاؤں اور طوائفوں کو یہودی معاشرے میں سر ڈھانپنے کی اجازت نہیں تھی تاکہ آزاد اور غلام عورتوں میں فرق کیا جاسکے۔
یہودیوں کے ہاں عورت کے حجاب کی حیثیت ایک دائمی سوگ کی سی ہے جو عورت کو ہماری پہلی ماں حواء کے سیب کھانے کی عظیم غلطی کی شرمندگی کا احساس دلاتی ہے، یہی وجہ ہے یہودی خواتین پابندی سے سر ڈھانپتی ہیں۔
کچھ ممالک میں جیسے یوکرین اور ہنگری میں آرتھوڈکس یہودی خواتین اپنی شادی کے وقت گنجی ہوجاتی تھیں اور سر کو رومال سے باندھ دیتی تھیں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ شادی کی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے دوران سر کے بال غلطی سے بھی ظاہر نہ ہوسکیں۔
جب کچھ شوہروں نے اس طرزِ عمل پر اعتراض کیا کہ اس طرح عورت کی خوبصورتی شدید متاثر ہوتی ہے تو اٹھارویں صدی میں یہودی خواتین نے اپنے گنجے سروں پر وگ پہننا شروع کردی، تاہم غیر آرتھوڈکس خواتین مذہبی رسومات کے وقت صرف سر ڈھانپنے پر ہی اکتفاء کرتی ہیں۔
یکم جنوری 2008 کو امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر ڈیلس میں یاسر عبد السید نامی ایک ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی دونوں بیٹیوں 17 سالہ سارہ اور 18 سالہ امینہ کو اس لیے قتل کردیا کیونکہ ان بچیوں نے حجاب پہننے سے انکار کردیا تھا، اس نے اپنی دونوں بیٹیوں پر اس وقت گولی چلائی جب وہ کسی ہوٹل کے باہر ٹیکسی پر سوار تھیں۔
اس کے کچھ عرصہ بعد ٹورانٹو کینیڈا میں محمد پرویز نامی ایک 57 سالہ پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی زیرِ تعلیم بیٹی کو اپنی دیگر کلاس فیلوز لڑکیوں کی طرح حجاب نہ پہننے کے سبب قتل کردیا۔
ایران کے ایک عالم غلام رضا حسانی نے اپنے جمعے کے ایک خطبے میں یہ فتوی صادر فرمایا کہ حجاب نہ پہننے والی خواتین کو قتل کردینا چاہیئے، انہوں نے انقلاب کے بعد ایران میں بے پردہ خواتین کے زندہ ہونے پر تعجب کا اظہار کیا۔
طالبان کے افغانستان میں بے پردہ خواتین کو گولی مار دی جاتی تھی۔
جزیرہ نُما عرب میں ظہورِ اسلام سے قبل حجاب یا نقاب کا رواج نہیں تھا، مسلمانوں میں حجاب مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے اور وہاں کے یہودیوں کے ساتھ گھلنے ملنے کے بعد متعارف ہوا۔
جب جنگوں سے مسلمان طاقتور ہوگئے اور غلاموں اور کنیزوں کی ریل پیل ہوگئی تو آزاد اور غلام مرد وخواتین میں تفریق کی ضرورت آن پڑی۔
لہذا آزاد مرد مونچھیں منڈواتے اور داڑھی بڑھاتے اور خواتین حجاب یا نقاب پہنتیں، تفسیر الطبری کے مطابق حضرت عمر جب کسی غلام عورت کو پردے میں دیکھتے تو اسے دُرے مارتے تاکہ آزاد خواتین کے لباس کی حفاظت کی جاسکے جیسا کہ یہودی کرتے تھے۔
ذیل میں اسلام میں حجاب اور اس کی اہمیت پر کچھ ائمہ کرام کے اقوال نقل ہیں:
1۔مفسرِ قرآن وصحابی رسول حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: اللہ نے مؤمنین کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ اگر وہ کسی ضرورت کے تحت گھر سے نکلیں تو اپنے چہروں کو جلابیب سے سر کے اوپر سے ڈھانپیں اور صرف ایک آنکھ ظاہر کریں۔
2۔امام یحیی بن سلام التیمی البصری القیروانی فرماتے ہیں: جلباب ایک لباس ہے جس سے عورت پردہ کرتی ہے۔
3۔امام ابو المظفر السمعانی فرماتے ہیں: عورت کو چاہیئے کہ وہ اپنے جلباب سے اپنا سر، چہرہ اور سارا بدن ڈھانپے سوائے ایک آنکھ کے۔
4۔امام بغوی فرماتے ہیں: مؤمنین کی عورتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کو وہ جلباب سے اپنے سر اور چہرے ڈھانپیں سوائے ایک آنکھ کے تاکہ پتہ چلے کہ وہ آزاد ہیں۔
5۔امام العز بن عبد السلام فرماتے ہیں: جلباب وہ لباس یا نقاب یا ہر وہ لباس ہے جو عورت اپنے کپڑوں کے اوپر پہنتی ہے اور اپنا جسم اور چہرہ ڈھانپتی ہے تاکہ وہ نظر نہ آئے سوائے ایک آنکھ کے۔
اسی طرح باقی کی کوئی 41 تفاسیر پر قیاس کرتے چلے جائیے جو ساری کی ساری ہماری بہو بیٹیوں سے نقاب کا مطالبہ کرتی ہیں، یہ ساری تفسیریں یا تاویلیں سورہ احزاب کی آیت نمبر 59 کی ہیں:
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا
اے پیغمبر ﷺ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہدو کہ باہر نکلا کریں تو اپنے چہروں پر چادر لٹکا کر گھونگھٹ نکال لیا کریں۔ یہ چیز انکے لئے موجب شناخت و امتیاز ہو گی تو کوئی انکو ایذا نہ دے گا۔ اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔
ابنِ کثیر اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: مدینہ کے فاسق لوگ رات کو نکلتے، اگر پردے والی کوئی عورت دیکھتے تو کہتے: یہ آزاد ہے، اور اس سے باز رہتے، اور اگر بغیر پردے کے کسی عورت کو دیکھ لیتے تو کہتے: یہ لونڈی ہے، اور اس پر حملہ کردیتے۔
سورہ احزاب کی آیت 33 بھی زیادہ تر مفسرین کے بقول اس لیے نازل ہوئی تھی کہ کفار مؤمنین کی عورتوں اور رسول اللہ کی بیویوں کو چھیڑنے لگے تھے۔
لہذا گھر میں رہنے اور حجاب پر زور دیا گیا تاکہ مؤمنین اور خاص کر رسول اللہ کی بیویوں کا پتہ نہ چلے اور وہ کسی طرح کی چھیڑ خانی سے بچ سکیں، یہ حجاب صرف آزاد عورتوں پر فرض کیا گیا تھا لونڈیوں اور کنیزوں پر نہیں، حضرت عمر نے جب ایک لونڈی کو با حجاب دیکھا تو اس پر تشدد کرتے ہوئے کہا کہ: کیا تم آزاد عورتوں سے مشابہت اختیار کرتی ہو؟؟
1659کو ہندوستان کے عسکری قائد افضال خان نے پنجاب کے راجہ شیوا پر حملے سے قبل اپنی 63 بیویوں کو اس ڈر سے قتل کردیا کہ اگر کہیں وہ جنگ میں مارا گیا تو کوئی اور اس کی بیویوں سے شادی نہ کر لے، قرآن کے مطابق رسول اللہ کی بیویوں پر بھی ان کی وفات کے بعد شادی حرام تھی۔
آخر مرد حجاب ونقاب سے عورت کی شخصیت کو مٹانے پر کیوں تلا ہوا ہے؟ کیا اس کی وجہ مذہبی تحریریں ہیں یا پھر یہ کوئی نفسیاتی معاملہ ہے کہ آخر مرد ہی ساری صعوبتیں برداشت کرتا اور گھر کا خرچ اٹھاتا ہے اس لیے سارے حقوق صرف اسی کے لیے ہیں اور عورت کو محض اس کی اندھی اطاعت کرنی چاہیئے، مرد اپنی عورتوں کو نقاب کے پیچھے چھپانا چاہتا ہے تاکہ اسے گھر میں قید کر سکے ان کی تعلیم اور معاشی خود مختاری پر قد غن لگا سکے۔
مرد کی نظر میں عورت جانور اور انسان کے بیچ کی کوئی “انسان نُما” مخلوق ہے جسے وہ جب چاہے مار کر اور طلاق دے کر گھر سے نکال سکتا ہے اور بغیر کسی پوچھ گچھ کے کسی اور کے ساتھ گھر بسا سکتا ہے، گویا عورت اس کی جنسی خواہشات کی تکمیل اور بچے پیدا کرنے کی مشین کے سوا کچھ نہیں، جنت میں بھی اس کی یہی حالت برقرار رہتی ہے، مرد حوروں سے لطف اندوز ہوتا ہے اور وہ محض اسی سابقہ شوہر کے زیرِ نگیں رہتی ہے۔
اگر عورت تعلیم حاصل کر کے معاشی خود مختاری حاصل کر لے تو ایسی صورت میں مرد کی مردانگی اور اس کی وراثتی معاشرتی حیثیت خطرے میں پڑ جاتی ہے، ایسی صورت میں وہ عورت کے ساتھ پہلے کی طرح کنیزوں والا رویہ نہیں اپنا سکتا جو کہ اس کی عادت رہی ہے، اس لیے عورت کی شخصیت کو حجاب ونقاب میں مٹانا ضروری ہوجاتا ہے، یہ مرد کے لیے ایک شافی نفسیاتی علاج ہے، یہی وجہ ہے جو طالبان کو مبالغہ آرائی کی حد تک عورت دشمن بنا دیتی ہے اور وہ نقاب وحجاب کے شرعی ہتھیار سے لیس ہوکر معاشرے سے اسے غائب کرنے کی مہم پر نکل کھڑے ہوتے ہیں، جب افغانستان میں انہیں اقتدار نصیب ہوا تو سب سے پہلا کام جو انہوں نے کیا وہ لڑکیوں کے سکول اور کالج بند کروانا اور نقاب کو لازمی قرار دینا تھا، خلاف ورزی کرنے والی کی سزا موت تھی، بیواؤں کو کام کرنے سے روک دیا گیا اور انہیں گھروں میں رہنے پر مجبور کردیا گیا جس کی وجہ سے ہزاروں خواتین اپنے بچوں سمیت بھوکوں مر گئیں۔
دسمبر 2006 میں مشرقی افغانستان میں طالبان نے ایک پورے خاندان کو محض اس لیے قتل کردیا کیونکہ انہوں نے اپنے گھر کے اندر بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوشش کی تھی، قبل ازیں طالبان نے 20 مرد وخواتین پر مشتمل اساتذہ کو گھروں میں بچیوں کو پڑھانے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، کشمیر میں اسلام پسندوں نے سکول جاتی بچیوں پر تیزاب پھینک کر ان کے چہرے مسخ کردیے، 1998 میں الجزائر میں اسلام پسندوں نے سکول جانے کی پاداش میں 300 بچیوں کو قتل کردیا۔
آزادی فکر اور ارادے کی ہوتی ہے جب تک کہ وہ قانون کے دائرے میں رہے، عورت کی آزادی کی مخالفت کرنے والے بعینہ وہی منطق استعمال کرتے ہیں جو وہ آزادیء صحافت، آزادیء اظہار رائے اور دیگر تمام آزادیوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں، مسلم ممالک کی طرف دیکھیئے، آپ کو عورت مرد کی غلام نظر آئے گی اور مرد حاکم، مرد اپنے گھر میں ظالم ہے اور گھر کے باہر مظلوم ہے، مغربی ممالک کی طرف دیکھیئے، آپ کو حکومتیں آزادی اور انسانی حقوق کے قاعدے لاگو کرتی نظر آئیں گی، عورت کی قدر ومنزلت احترام کی بلندیوں کو جا پہنچی ہے۔
مغربی اقوام کی بھی اخلاقیات اور اقدار ہیں، وہ صفائی پسند ہیں اور جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں، وعدہ کرتے ہیں تو وفا کرتے ہیں، ان پر یہ الزام کہ وہ مسلم معاشروں سے فکری طور پر پسماندہ ہیں غیر منصفانہ اور بے بنیاد الزام ہے، اگر آپ مسلم معاشروں کی اخلاقیات پر غور کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان کی اخلاقیات صرف ایک چیز کے گرد گھومتی ہے اور وہ ہے عورت، مسلم اقوام کو عورت کے برقع اور کنوارے پن کا گویا خبط ہے۔
مغرب کی اخلاقیات کے اسباب علمی ہیں مذہبی نہیں، اخلاقیات پر ارسطو کی پوری ایک کتاب ہے جس میں ثواب اور آخرت میں سزا کا ایک بھی لفظ نہیں ہے، ہر فلسفی نے اخلاقیات کے موضوع کو فلسفیانہ پہلو سے دیکھا ہے، درست فہم اور معرفت کے بغیر اخلاق ایک عارضی حالت بن جاتے ہیں اور جلد ہی زوال پذیر ہوجاتے ہیں۔
A comment by Saeed Hassan
Entered by nSalik (Noor Salik)
دین الاسلام قرآن اور سنت میں ہے ، اسلام صرف حدیث میں نہیں جو کہ لاتعداد من گھڑت روایات کا مجموعہ بھی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ صحیح احادیث بھی دین کو سمجھنے میں مددگار ہیں ۔ “میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ صحیح احادیث اور قرآن میں کوئی تعارض (اختلاف) نہیں ہے ۔ تاہم میں روایت کو بطور اصل نہیں بلکہ بطور تائید پیش کیا کرتا ہوں” (امام حمیدالدین فراحی) ۔ اگر دین سمجھنا ہے تو اسکا پیش نیاز(شرط) ایمان ہے ورنہ ان کتابوں میں اقبال شیخ صاحب کیلیۓ کچھ نہیں رکھا ۔ اگر کتاب اللہ اپنے اندر نور، ہدایت اور شفا رکھتی ہے تو یہ تذلیل اور تمسخر کا بھی بہت اچھا سامان ہے ۔
[Quran 7:146] I will divert from My revelations those who are arrogant on earth, without justification.Consequently, when they see every kind of proof they will not believe. And when they see the path of guidance they will not adopt it as their path, but when they see the path of straying they will adopt it as their path. This is the consequence of their rejecting our proofs, and being totally heedless thereof.
[Quran 17:82] We send down in the Quran healing and mercy for the believers. At the same time, it only increases the wickedness of the transgressors.
[Quran 16:9] God points out the PATHS, including the wrong ones. If He willed, He could have guided all of you.
[Quran 76:3] We showed him the two PATHS, then, he is either appreciative, or unappreciative.
[Quran 17:45-46] When you read the Quran, we place between you and those who do not believe in the Hereafter an invisible barrier. We place shields around their minds, to prevent them from understanding it, and deafness in their ears. And when you preach your Lord, using the Quran alone, they run away in aversion.
[Quran 18:57] Who are more evil than those who are reminded of their Lord’s proofs, then disregard them, without realizing what they are doing. Consequently, we place shields on their hearts to prevent them from understanding it (the Quran), and deafness in their ears. Thus, no matter what you do to guide them, they can never ever be guided.
[Quran 56:79] None can grasp it Quran) except the sincere.
[Quran 3:7] He sent down to you this scripture, containing straightforward verses – which constitute the essence of the scripture – as well as multiple-meaning or allegorical verses. Those who harbor doubts in their hearts will pursue the multiple-meaning verses to create confusion, and to extricate a certain meaning. None knows the true meaning thereof except God and those well founded in knowledge. They say, “We believe in this – all of it comes from our Lord.” Only those who possess intelligence will take heed.