ایک ہنگامہ بپا ہےکہیں میرے اندر
کیا کوئی مجھ سے خفاہےکہیں میرے اندر
ایک خوشبو مرے اطراف ہے بھینی بھینی
آج پھر کوئی کھِلا ہے کہیں میرے اندر
میں جسےڈھنڈ رہا ہوں کہیں باہر اپنے
وہ مجھے ڈھنڈ رہا ہےکہیں میرے اندر
اک چبھن ہے جو سبب ہے مری بے چینی کا
کچھ نہ کچھ ٹوٹا ہواہےکہیں مرے اندر
آئینے دیدے گواہی کبھی اُس کی اِک دن
ایک خاکی جوادا ہے کہیں میرے اندر
ڈھنڈتا رہتا ہوں اقباؔل میں ہر سُو جس کو