نظم
ہمیں ڈر رہتا قصہ عاشقی نہ لیک ہو جائے
انہیں ڈر کھڑکیوں سے جھانکنا نہ لیک ہو جائے
پسِ چلمن سے بھی آواز سہمی سہمی اٹھتی تھی
محلے کی بوا خالہ کے ہاں نہ لیک ہو جائے
کبھی سرگوشیاں دیوار سے بھی بچ کے ہوتیں تھیں
کہ منہ سے بات نکلی اُس طرف نہ لیک ہو جائے
حسیں آنکھیں نقابِ رخ میں بھی خاموش رہتی تھیں
کہ پلکوں کا جھپکنا بھی کہیں نہ لیک ہو جائے
محبت جان و دل میں ہی مقدس بن کے رہتی تھی
کہیں یہ چشم ِ تر آہوں سے بھی نہ لیک ہو جائے
مگر اس دورِ وکی لیک میں کیسے چھپائیں ہم
ابھی ہم سوچ ہی میں ہیں اُدھر سب لیک ہو جائے
بہت تھا آسرا ہم کو خدائی پردہ پوشی کا
مگر اب پردہ پوشی میں بہت کچھ لیک ہو جائے
محبت کی فقط اک لہر اٹھتی ہے تو پل بھر میں
کہانی بن کے ٹویٹر پر جہاں میں لیک ہو جائے
جو اِس دل سے محبت اُٹھتی اُس دل میں اُترتی تھی
وہ اب اون لائین ریڈی میڈ ہو کر لیک ہو جائے
میں اکثر سوچتا ہوں فیس بک یو ٹیوب و ٹویٹر پر
اگر گزرا زمانہ آج سب پر لیک ہو جائے
تو حُسنِ عشق تھا وہ یا فریبِ زندگی اشرف
بہت ممکن ہے اس الجھن کا حل بھی لیک ہو جائے
اشرف