فیض کی یاد میں
غزل
”رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی”
جیسے بھولے ہوئے نغموں کو نئی داد آئی
بے وجہ ہولے سے اس دل کو قرار آنے لگا
جیسے پھر کُنجِ قفس میں سحر ِآزاد آئی
جانِ شوریدہ میں پھر جوشِ جنوں اُٹھنے لگا
لمحہ لمحہ جو وہی رسم ِ حَکم یاد آئی
دل کی آواز جو خاموش تھی بیدار ہوئی
نقش ِ فریادی کے ہر نقش سے فریاد آئی
کلمہء صدق و صفا پھر سے گنہگار ہوا
اہل ِ اِیوان ِ ہوس میں شب ِ بیداد آئی
اب نہ وہ دار نہ زنجیر نہ وہ طوق و رسن
چلتے پھرتے سر ِمقتل کی یہ ایجاد آئی
کیوں ہوے قتل نہ مقتول نہ قاتل کو خبر
بے وجہ دہر میں یوں صَرصَر ِبرباد آئی
فیض پھر اہل ِ وطن کو ہے ضرورت تیری
ہائے صد حیف ترے بعد تری یاد آئی
دور ِ آمر ہو یا جمہوری مگر دیکھ اشرف
فکرِ دوراں میں غمِ فیض کی روداد آئی
اشرف
This ghazal said by me in September 2011 is a tribute to Faiz Ahmed Faiz. 2011 was Faiz’s year.