اے مرغِ سحر دہر میں اک شور مچا ہے
یہ صبح نئی دن ہے نیا سال نیا ہے
اور شام کے ڈھلتے ہی چراغاں کا سماں ہے
جیسے کہ نئے سال میں حسنِ رخِ جاناں ہے
انداز تیری بانگِ سحر کا تو وہی ہے
روشن صبح صادق کا ستارہ بھی وہی ہے
سورج بھی وہی چاند ستار ے بھی وہی ہیں
یہ دھوپ یہ سائے یہ نظارے بھی وہی ہیں
گردوں کے شب و روز اشارے بھی وہی ہیں
ظالم بھی وہی ظلم کے مارے بھی وہی ہیں
ہر لمحے سے وابستہ وہی بیم و رجا ہے
حیراں ہوں نئے سال میں کیا ہے جو نیا ہے
گردن جو اُٹھا کر دی اذاں مرغِ سحر نے
اظہار کیا لطفِ خودی اس کی نظر نے
اک حسن ِسحر ہے میری ہر بانگِ سحَر میں
ہر روز ہے اُمید نئی اس کے سحِر میں
اشرف میں بتاتا ہوں نئے سال میں کیا ہے
اُمید نئی ہے جو نئے سال کا مژدہ ہے
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوے سورج کو ذرا دیکھ
اشرف
Excellent presentation of poetic observations by Mirza Sahib climaxing on Allama Iqbal.
Zalim bhi wohi, zulm kae mare bhi whoi hain….Awesome! Very true, just another day.
Babar