What is Thinkers Forum USA

EOM, and Noor Sahib, my remark about the Thinkers Forum made on the Forum’s Facebook is here to refresh your memory:

Mirza Ashraf reviewed Thinkers Forum USA — 5 star

It is an enlightening free thinkers’ forum.

The TF Board needs to sit down and find out, whether the members of this Forum thinking freely or do they know what is “Enlightenment.” In Europe, Enlightenment started from Bacon (1561-1626) to, Galileo, Hobbes, Descartes, Spinoza, Lock, Malebranche, Newton, Leibniz, Bayle, Berkeley, Hume, Rousseau, Diderot, Kant (1724-1804) and many more. As you know, I have gone through all these thinkers and many more and have found none of them was a hair splitter of Christianity or Judaism. There have been many others throwing cheap comments, and bad remarks, but the classified great thinkers who made their impact on Enlightenment have remained focused on the subject of “What is Enlightenment.”

The Age of Enlightenment

Between the years 1751 and 1772, the first volume of theencyclopedia, a general encyclopedia edited by Denis Diderot and Jean le Rond d’Alembert, was published in France, which offered a comprehensive reference to new sciences, philosophical, sociopolitical and Enlightenment ideas. This helped develop the process of liberty and scientific learning, bringing a sensible change in the opinions of the people. Above all the blending of “natural sciences and philosophy” resulted in Enlightenment ideals. It placed the highest value on reason, scientific inquiry, human natural rights, liberty, equality, freedom of thought and expression, and on diverse cosmopolitan worldviews that the Scottish philosopher David Hume and after him many other recognize as a “science of man.” The scientific attitude of rational enquiry replaced the previous intellectualism of thought and action. It shaped the idea that the methods and concepts of science should be applied in all domains of enquiry. This change became the key to Enlightenment, which put man more firmly than before at the center of the universe. It laid the foundation of the rise of a new civilization, which is known today the Western Civilization.

Isaac Newton (1642-1727) to close his work Optics (1704) argued with the words, “If natural philosophy in all its parts, by pursuing this Method [i.e. scientific method], shall at length be perfected, the bounds of ‘moral philosophy’ will be enlarged.” By “moral philosophy” Newton meant all of ethics, psychology, economics, politics, and history.Enlightenment, thus, sought to reconstruct morality on a rational basis. Newton, thus came to be viewed as the first and greatest of the modern age of scientists, and rationalists. He professed to think on the lines of cold and untinctured reason. People of Europe saw a new order of men and women, when on July 14, 1789, the fall of Bastille in Paris, sparked the French Revolution, and the Enlightenment ideas of “liberty and equality” resulted in a secular, democratic, and republican era.

Emanuel Kant (1724-1804) published in 1748 a short essay putting forward an “Idea for a Universal History from Cosmopolitan Point of View” for the emancipation of man through man.Answering to the question of What is Enlightenment he described the Enlightenment as a precise modality of the exercise of reason, which was animated by a strong “spirit of freedom” and intimately connected with mankind’s natural need for knowledge—the progress of mankind toward improvement through the freedom to make public use of one’s reason at every point. In his concise depiction, the Enlightenment was nothing other than a great act of courage, a passionate invitation never to be afraid of emancipation.

(above paragraphs are from my essay: History of Knowledge-Explosion — Part V The Second Explosion 1300-1800)

It is important, we need to think and see and analyze the issue of Enlightenment and Free thinking. Most of the time discussion is derailed and atheism in itself becomes a degraded issue by making insulting remarks on religious precepts and injunctions. I believe, if I am not wrong, only six to seven members take part in our discussion in the Forum, while the majority remains silent or even do not care to read the comments. Noor Sahib as a Chairman of this Forum, it is time to discuss in detail why members are opting out and why a majority is disinterested? Editors can also post this message on TF web blog, if it is considered useful and reasonable.

Mirza

Controversial views about Quaid -e-Azam

ڈاکٹر منظوراعجاز
OCTOBER 04, 2017 | 12:00 AM
قائداعظم اور پاکستان کا نظریاتی ارتقا

 پاکستان کے دانشور حلقوں میں وقتاً فوقتاً یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ کیا پاکستان کے بانیان ایک علیحدہ مسلمان ریاست کے حامی تھے یا نہیں۔ اس سلسلے میں تاریخ دان عائشہ جلال کا نقطہ نظر ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے ذہن میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کا تصور نہیں تھا: وہ ہندوستان کے اندر مسلمانوں کی با اختیار ریاستوں کے حق میں تھے۔ اسی طرح علامہ سر محمد اقبال کے پاکستان کے بارے میں اسی طرح کے افکار کے بارے میں متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی عائشہ جلال کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے قائد اعظم کے 1940کے صدارتی خطبے کا ذکر کرتے ہیں جس میں انہوں نے علیحدہ مسلمان ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بانیان پاکستان کے بیانات اور خطبات سے پاکستان کی اساس کے بارے میں کیا اخذ کیا جا سکتا ہے اور کیا اس سے موجودہ صورت حال کو تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
جہاں تک قائد اعظم محمد علی جناح کا تعلق ہے تو ان کے ایسے بیانات بھی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو ایک علیحدہ مسلمان ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے اور ایسے بیانات بھی ہیں جن سے یہ لگتا ہے کہ وہ ہندوستان کے اندر مسلمانوں کی خود مختار ریاستوں کے حامی تھے۔ اسی طرح ان کے پاکستان کو مذہبی ریاست بنانے کے بارے میں مختلف بیانات ہیں۔ ایک بات تو واضح ہے کہ وہ ایک سچے انسان ہوتے ہوئے دہرے معیاروں کے حامی نہیں تھے۔ ان کا اپنا طرز زندگی مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا اور اس بات کے کم امکانات ہیں کہ وہ اس طرح کی مذہبی ریاست کا تصور رکھتے ہوں جو ستر کی دہائی کے بعد وجود میں آئی۔ یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ ان کے ذہن میں آبادی کی وسیع پیمانے پر منتقلی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ غالباً ان کے خیال میں غیر مسلم پاکستان میں موجود رہیں گے اور شاید اسی لئے انہوں نے ایسے بیانات بھی دئیے جن کا مقصد مذہبی تفریق کو مٹانا تھا۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ نہ تو مسلم لیگ ایک مذہبی پارٹی تھی اور نہ ہی اس کا بیانیہ عقیدہ پرستی پر مبنی تھا۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ بانیان پاکستان نے ریاست کے بارے میں کوئی جامع نظریہ پیش نہیں کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد نہ صرف انتظامی اور سیاسی خلا تھا بلکہ نظریاتی خلا بھی موجودتھا جس کو قرارداد مقاصد کے ذریعے پر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے الٹ پنڈت جواہر لال نہرو کی سربراہی میں کانگریس کا سیکولرازم کا واضح نظریہ موجود تھا جسے فوری طور پر زیر عمل لایا گیا۔ کانگریس کے ایجنڈے پر زرعی اصلاحات پر بھی زور دیا گیا تھا جس کے بارے میں مسلم لیگ میں خاموشی تھی۔ لیکن اگر واپس مڑ کر دیکھیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ نہ تو پاکستان قائد اعظم کی شخصیت کا عکاس بن سکا اورنہ ہی ہندوستان بی جے پی کے عروج کے بعد سیکولرازم کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ لہٰذا قائد اعظم یا پنڈت جواہر لال نہرو کے جو بھی خیالات تھے وہ آج کے برصغیر کی نظریاتی صورت حال سے باالکل مختلف تھے۔ اس لئے ماضی کے رہنماؤں کے ستر سال پرانے بیانات کی بجائے اس امر کو دیکھنے کی ضرورت ہے برصغیر کی ریاستوں بالخصوص پاکستان کا ارتقا کس انداز سے ہوا۔
مسلم لیگ میں قائد اعظم کے علاوہ زیادہ تر لیڈرشپ جاگیردار طبقے پر مشتمل تھی جس کا کوئی واضح نظریہ نہیں تھا۔ ہندوستان کی جن ریاستوں میں پاکستان بنا ان میں مسلمان اکثریت میں تو تھے لیکن وہ زیادہ تر زرعی شعبے سے منسلک، کسان یا جاگیردار تھے۔ان مذکورہ علاقوں کے شہری آبادی میں مسلمان محض دستکار اور مزدور تھے۔ تاریخی طور پر ان طبقات میں جدید سیکولر خیالات کی نمو ناممکن رہی ہے۔ مزید برآں شہری علاقوں میں بورزواژی اور درمیانے طبقات غیر مسلموں بالخصوص ہندوئوں پر مشتمل تھے: مسلمانوں کا نہ کوئی تاجریا صنعتی طبقہ تھا اور نہ ہی پیشہ ور تنظیمیں تھیں۔ اس سیاق و سباق میں دیکھیں تو پاکستان کی طبقاتی ترتیب ایسی تھی کہ اس میں جدید سیکولر نظریات پنپ نہیں سکتے تھے۔ غرضیکہ پاکستان میں جاگیرداری دور کے مذہبی نظریے کا غالب آنا فطری عمل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود پاکستان کی مخالفت کے مذہبی جماعتوں (یا نظریات) نے نظریاتی خلا کو پر کرنا شروع کردیا۔ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان اورمجلس احرار جیسی مذہبی تنظیموں نے پاکستان بننے کے بعد ریاست کے بیانیے کے تعین کے عمل پر غلبہ حاصل کرنا شروع کر دیا۔ عالمی سامراجی طاقتیں بھی روس کے سوشلزم کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کو ایک پسماندہ جاگیرداری ریاست کے طور پر قائم رکھنا چاہتی تھیں۔ غرضیکہ پاکستان کی طبقاتی ترتیب اور عالمی طاقتوں کا ایجنڈہ ایسا تھا کہ پاکستان کو آخر کار مذہبی ریاست میں ہی ڈھلنا تھا قائداعظم کے خیالات جو بھی ہوں وہ پاکستان میں نظریاتی ارتقاپر حاوی نہیں ہو سکتے تھے۔
انگریز کی تربیت یافتہ فوج اور نوکر شاہی میں جزوی طور پر سیکولر دھڑے موجود تھے جن کی وجہ سے ستر کی دہائی تک ریاست کے مذہبی بیانیے کے خلاف مزاحمت موجود تھی۔ لیکن ستر کی دہائی کے آغاز سے ہی مذہبی بیانیوں نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی تھیں جس کااظہار ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامائزیشن کے فیصلوں سے واضح ہوجاتا ہے۔ مذہبی بیانیہ کا 1977کی قومی اتحاد کی تحریک میں غلبہ مکمل ہو چکا تھا جس کو جنرل ضیاء الحق نے آگے بڑھایا۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اب جبکہ پاکستان میں ریاستی بیانیہ مکمل طور پر مذہبی ہو چکا ہے، ملک میں ایسے طبقات پیدا ہو چکے ہیں جن میں جدید افکار پنپ سکتے ہیں: اب پاکستان میں وہ تمام تر طبقات پیدا ہو چکے ہیں جو 1947سے پہلے ہندوئوں اور دیگر غیر مسلموں پر مشتمل تھے۔ اب ریاست کے مذہبی بیانیہ کے خلاف ٹھوس عوامل معرض وجود میں آچکے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مذہبی بنیاد پرستی سے دوری اور جماعت اسلامی کا زوال مستقبل میں روشن خیالی کے آثار ہیں۔

Shared by Dr. S. Akhtar Ehtisham

Continue reading

A Ghazal by Iqbal Sheikh

مری کہاں سے ہوئی ابتدا کہانی کی؟
مکاں کی بات کروں میں یا لا مکانی کی
عبارتوں کے حسیں سلسلے بنے جونہی
متاعِ ذہن کی لفظوں نے ترجمانی کی
مجھے تُو انگلی پکڑ کے گھما رہا ہے کیوں
وجہ بتا تو مجھے اپنی مہربانی کی
خرد کی سیڑھیوں پہ وہ قدم نہیں رکھتا
لگی ہو لت جسے نعتوں کی نوحہ خوانی کی
سنا عجم کو عرب کی نہ داستاں احمق
تُجھے عادت بُری کیوں ہے یہ چھیڑ خوانی کی
ثبوت کیا بھلا اقبال اُس کا ہے ممکن
کسی نے بات کسی سے جو منہ زبانی کی