And God Created Woman

….

Shared by Iqbal Sheikh!

And God Created Woman

“اور خدا نے عورت کو بنایا”
Anderson Shaw

مگر کیا خدا مرد ہے؟

سنۃ 1956ء میں فرانسیسی فلم   “اور خدا نے عورت کو بنایا” ریلیز ہوئی ۔ اسی فلم سے بریجٹ بارڈونامی قاتل حسینہ پہلی بار عالمی سینما میں متعارف ہوئی اور ساٹھ کی دہائی کی جنسی علامت

 (sex symbols)

کے طور پر ابھری۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس فلم نے امریکی سینما کا رخ ہی بدل دیا جس نے میرلین مونرو کو متعارف کرا کر فرانسیسیوں کو بھرپور جواب دیا۔

اس فلم پر کیتھولک چرچ نے کافی شور مچایا، دراصل یہ فلم کسی بھی طرح سے فرانسیسی سینما کی نمائندگی نہیں کرتی تھی، نہ کہانی اور نا ہی اس کا انداز تاہم بارڈو کا شوہر راجر ویڈیم جو فلم کا ڈائریکٹر تھا اس فلم میں اپنی بیوی کا حسن اچھی طرح نمایاں کرنے میں کامیاب رہا، اس خوش قسمت آدمی نے یکے بعد دیگرے دنیا کی خوبصورت ترین عورتوں سے شادی کی، بریجیٹ بارڈو کے علاوہ اس نے جین فونڈا

اور کینڈی ڈارلنگ سے بھی شادی کی اور کئی سال کیتھرین ڈینیوکے ساتھ مفت میں گلچھرے اڑاتے ہوئے گزارے۔

بہرحال ہم اب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر خدا نے عورت کو بنایا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ مرد ہے؟

تاریخ میں زیادہ تر مذاہب نے خدا کو تمام تر مردانہ خصوصیات سمیت ایک بھرپور مرد کے طور پر پیش کیا، اس خدا کی داڑھی تھی، مسل تھے اور بعض اوقات جنسی اعضاء بھی، ابراہیمی یا توحیدی کہلائے جانے والے مذاہب جن میں یہودیت، اسلام اور عیسائیت شامل ہیں خدا ہمیشہ ایک مرد سے ملتا جلتا رہا۔

مذہبی فکر خدا کی جنس کے حوالے سے کافی خلفشار کا شکار رہی ہے خاص طور سے یہ ابراہیمی مذاہب جب ان کا سامنا کلاسیکی یونانی فلسفے سے ہوا، یونانیوں کے ہاں خدا مرد  و زن پر مشتمل تھے اور ہر ایک کا اپنا ایک کام تھا مگر ان ابراہیمی مذاہب نے ان سب خداؤوں کو ایک ہیرو میں مدغم کرنا چاہا۔مرد  و زن، خیر وشر حتی کہ وہ مسخ شُدہ شکل سامنےآئی جو اب ہمارے سامنے ہے۔وحید یا یکجائی کے خیال کی کنفیوزن میں ان تینوں مذاہب نے خدا کو بیچ والا بنا کر بے جنس کردیا یعنی نا مرد اور نا ہی عورت۔

عیسائیوں کی اس ویب سائٹ پر  اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے:

سوال: کیا خدا مرد ہے یا عورت؟

جواب: مقدس کتاب میں غور کرنے سے ہم پر دو حقیقتیں منکشف ہوتی ہیں: پہلی حقیقت یہ ہے کہ خدا روح ہے، اس کی کوئی صفات یا بشری حدود نہیں ہیں، دوسری حقیقت یہ ہے کہ تمام دلائل اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ خدا نے خود کو انسانیت کے سامنے ایک مرد کی شکل میں ظاہر کیا، شروع میں ہمیں خدا کی حقیقی نیچر کو سمجھنا چاہیئے، خدا ایک شخص ہے، یہ واضح ہے کہ اس کے پاس ایک شخص کی سی صفات ہیں جیسے عقل، ارادہ سمجھداری اور جذبات، اور خدا انسانوں سے رابطہ میں رہتا ہے اور ان سے تعلقات قائم رکھتا ہے اور یہ کہ خدا کے ذاتی اعمال مقدس کتاب کے ذریعے واضح ہیں۔

اس جواب سے پتہ چلتا ہے کہ عیسائیت خدا کو مرد سمجھتی ہے کیونکہ اس کی تجلی مرد کی صورت ہوئی نہ کہ عورت کی صورت میں ۔ایک اور جگہ کسی نے  سورہ اخلاص کا یہ پوسٹ مارٹمکیا ہے:

خدا نے اپنے بارے میں کہا ہے کہ اس نے ولادت نہیں کی (لم یلد) اور نا ہی اس کی ولادت ہوئی (ولم یولد) ولادت عورت کی خصوصیات میں سے ہے چنانچہ خدا عورت کی صنف میں سے ہے کیونکہ وہ قابلِ ولادت ہے اور چونکہ اس نے ابھی تک ولادت نہیں کی (لم یلد) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مستقبل میں ولادت نہیں کرے گا خاص طور سے سورت کا خطاب ماضی میں ہے۔

بہرحال مسلمان خدا کی جنس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے کہ ہی (یا شی) نا مرد ہے اور نا ہی عورت اور اس کے جیسا کچھ نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پھر خدا کے تمام ننانوے نام مذکر کی صفت میں کیوں آئے ہیں اگر وہ مرد نہیں ہے تو؟ کیا سوواں نام مؤنث تھا اور ہمیں نہیں بتایا گیا؟

ریت کے خدا کی جنس کے تعین میں یہ تضاد اور انکار کیوں ہے؟ میں نے اس مدعے کے تضادات پر کافی غور وخوض کیا ہے، کیا اس لیے کہ خدا کامل اور پرفیکٹ ہے اور کمال مرد کی صفات میں سے ہے کیونکہ عورت کا کمال آدھا ہے اور وہ مرد کی نصف ہے؟

میرا خیال ہے کہ محمدی دعوت کے آغاز میں خدا واضح طور پر ایک مرد تھا مگر یونانی فلسفے کے اثر کی وجہ سے مؤمنین خدا کی مردانہ حیثیت سے دستبردار ہوگئے اور اسے ایک “بے جنس” ہستی بنا دیا گیا تاکہ اس کے کمال کو بغیر تضادات کے مکمل کیا جاسکے۔ مگر کیا اس سے مسئلہ حل ہوگیا؟

سورۃ الانعام کی آیت 101 میں فرمایا گیا ہے کہ:

بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمۡ تَکُنۡ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ ؕ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ
وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اسکے اولاد کہاں سے ہو جبکہ اسکی بیوی ہی نہیں اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔

تو پھر “اسکے اولاد کہاں سے ہو جبکہ اسکی بیوی ہی نہیں” کا کیا مطلب ہے؟ یہی کہ وہ مرد ہے اور اگر وہ کوئی بیوی اختیار کر کے اس کے ساتھ سیکس کرے تو اس کے ہاں اولاد ہوسکتی ہے! یوریکا.. وہ یقیناً مرد ہی ہے، سورہ اخلاص میں “لم یلد” سے اس کی مراد یہ تھی کہ وہ مرد ہے اس لیے اس کے ہاں ولادت نہیں ہوتی مگر وہ ابھی تک کنوارہ ہے اور اس نے شادی نہیں کی ہے

لہذا جب وہ شادی کرے گا تب اس کے ہاں اولاد ہونا عین ممکن ہے۔

مؤمنین جب خدا کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو ہمیشہ مذکر ضمائر کا ہی استعمال کرتے ہیں، وہ اسے ہمیشہ “ہو” کہتے ہیں ناکہ “ہی” اور اگر خدا بغیر جنس کے ہے تو کبھی مذکر (ہو) اور کبھی مؤنث (ہی) کا استعمال کیوں نہیں کیا جاتا؟ یا لغت میں ایک اور ضمیر شامل کیوں نہیں کیا جاتا؟یقین کریں اگر کوئی خدا کے لیے مذکر کی بجائے مؤنث کا ضمیر استعمال کرے تو مؤمنین کو سخت غصہ آجائے گا، مگر کیوں؟ اس کی صرف دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں:

اول: یہ غصہ اس بات کی دلیل ہے کہ مؤمنین خدا کو مرد سمجھتے ہیں اور اسے مؤنث ضمیروں سے مخاطب کرنے کو اس کی توہین سمجھتے ہیں۔

دوم: انہیں واقعی یقین ہے کہ خدا بے جنس ہے، مگر اس کی تانیث کو وہ اس کی توہین سمجھتے ہیں، ان کے لیے خدا کا مذکر ہونا ایک اچھی اور مثبت بات ہے مگر اس کی تانیث ان کے ہاں منفی اور نا قابلِ قبول ہے۔

جو بھی ہو، دونوں صورتیں اپنے اندر عورت کی تذلیل اور توہین لئے ہوئی ہیں، اور اس سے مؤمنین کا یہ دعوی کہ “اسلام نے عورت کو عزت دی ہے” پاش پاش ہوجاتا ہے۔

اصل موضوع کی طرف پیش قدمی سے پہلے ایک نظر اسلام  میں عورت کے مقام پرڈالنا بہت ضروری ہے۔

اسلام میں عورت کا مقام

عصر حاضر میں اسلام میں عورت کے معاشرتی و سماجی کردار کے حوالے سے کافی سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور مسلم دنیا خود اس معاملہ میں ابہام کا شکار ہے۔ ایک سوچ کو افغانستان میں طالبان نے رائج کیا اور اس کو عین اسلامی بتایا۔ لیکن مسلم دنیا کے ایک طبقہ نے اس سوچ کو اسلامی تعلیمات سے متصادم قرار دیا۔ اسی طرح سعودیہ، ایران اور چند دیگر عرب ممالک میں بھی عورت کے معاشرتی اور سماجی کردار کے حوالے سے سنجیدہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ طالبان، عربوں اور سعودیہ کے اسلامی سماجی ڈھانچے میں عورت کے استحصال پر اٹھنے والے سوالات کے جواب میں لبرل مسلمان طبقہ اس استحصال کو پشتون و عرب روایات سے جوڑ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اسلامی تعلیمات سے اس استحصال کا کوئی تعلق نہیں اور عورتوں پہ جو پابندیاں عائد ہیں وہ طالبان اور عرب کی خود ساختہ پابندیاں ہیں۔

آیئے! ہم جاننے کی کوشش کریں کہ عورت کے معاشرتی و سماجی کردار کے حوالے سے پیغمبرِاسلام خود کیا سوچ رکھتے تھے اور اس موضوع پر امت کے لیے ان کے کیا احکامات و ارشادات موجود ہیں۔ جبکہ طالبان اور عرب معاشروں میں عورت کے استحصال کا حقیقی ذمہ دار کون ہے؟

جنتی کون ہے؟

 حضرت انس سے روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایا کہ آج تم کو جنتی عورت کے بارے میں نہ بتا دوں وہ کون ہے؟ ہم نے کہا ضرور تو آپ نے فرمایا! شوہر پر فریفتہ ہونے والی، زیادہ بچے جننے والی، جب یہ غصہ ہو جائے، یا اسے کچھ برا بھلا کہہ دیا جائے، یا اس کا شوہر ناراض ہو جائے، تو یہ عورت (شوہر کو راضی کرتے ہوئے) کہے میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں ہے میں اس وقت نہ سووٴں گی جب تک کہ تم خوش نہ ہو جاوٴ۔” (ترغیب ج ٣ ص ٣٧)

صالح اور نیک عورتیں بہت کم ہیں

بی بی عائشہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا مومنہ عورت کی مثال عورتوں میں ایسی ہے جیسا کہ کووٴں میں وہ کوا جس کے ایک پر میں سفیدی ہو۔” (مطالب عالیہ ج ٢ ص ٢١)

عورتوں کا جہاد گھریلو کام ہے

حضرت انس سے روایت ہے کہ:”عورتوں نے آپ ﷺ سےکہا کہ اے رسول اللہ جہاد کرنے سے مرد تو فضیلت لوٹ لے گئے۔ ہم عورتوں کے لیے بھی کوئی عمل ہے جس سے جہاد کی فضیلت ہم پاسکیں۔ آپ نے فرمایا ہاں گھریلو کام میں تمہارا لگنا یہ جہاد کی فضیلت کے برابر ہے۔” (مطالب عالیہ ج ٢ ص ٣٩)

شوہر کی اطاعت ہر حال میں لازم

بی بی عائشہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “اگر آدمی اپنی بیوی کو حکم دے کہ وہ جبل احمر (پہاڑ) کو جبل اسود کی طرف منتقل کرے۔ یا جبل اسود (پہاڑ) کو جبل احمر کی طرف منتقل کرے، اس کا حق ہے کہ وہ ایسا کرے۔” (ابن ماجہ، مشکوہ، ترغیب)

حضرت انس سے روایت ہے کہ: “ایک شخص گھر سے باہر جاتے ہوئے اپنی بیوی سے کہہ گیا کہ گھر سے نہ نکلنا۔ اس عورت کے والدین گھر کے نچلے حصہ میں رہتے تھے اور وہ گھر کے اوپر رہا کرتی تھی۔ والد بیمار ہوئے تو اس نے نبی پاک کی خدمت میں بھیج کر عرض کیا اور معلوم کیا (کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر والد کی تیمارداری کر آئے)۔ آپ نے فرمایا اپنے شوہر کی بات مانو چنانچہ اس کے والد کا انتقال ہوگیا پھر اس نے نبی پاک کے پاس آدمی بھیج کر معلوم کیا، آپ نے فرمایا شوہر کی اطاعت کرو۔ پھر نبی پاک نے اس عورت کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ اللہ نے تمہارے شوہر کی اطاعت کی وجہ سے تمہارے والد کی مغفرت کردی۔” (مجمع ج ۴ ص ٣١٦)

حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول پاک نے فرمایا: “اگر میں کسی کو سجدہ کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ شوہر کو سجدہ کرے۔“(ترمذی ج ١ ص ١٣٨)

حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ ﷺ نے فرمایا: “جب شوہر اپنی عورت کو بسترے پر بلائے اور عورت نہ جائے تو فرشتے اس عورت پر صبح ہونے تک لعنت کرتے رہتے ہیں۔” (بخاری ج ٢ ص ٢٨٢)

حضرت طلق سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”مرد جب اپنی ضرورت سے عورت کو بلائے تو عورت فورا آ جائے چاہے وہ تنور پر کیوں نہ بیٹھی ہو۔“(ترمذی، ترغیب)

حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”عورت خدا کا حق ادا کرنے والی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ شوہر کا پورا حق ادا نہ کرئے۔ اگر شوہر اسے بلائے اور وہ اونٹ کی پالان پر ہو تب بھی وہ انکار نہیں کرسکتی۔“(طبرانی، ترغیب)

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: “کسی عورت کے لیے درست نہیں کہ وہ شوہر کی موجودگی میں روزہ (نفلی روزہ) رکھے ہاں مگر اس کی اجازت سے۔ اگر اس نے (بلا اجازت) روزہ رکھا تو بھوکی پیاسی رہی اور قبول نہ کیا جائے گا۔(مجمع ج ۴ ص ٣١٠)

حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”جب عورت اپنے شوہر سے (غصہ کی وجہ سے) الگ بستر پر رات گزارے تو اس پر فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ عورت شوہر کے پاس آجائے۔“(بخاری۔ مسلم)

شوہر سے طلاق مانگنے پر جنت حرام

حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ نبی پاک نے فرمایا:”جو عورت اپنے شوہر سے بلا کسی ضرورت شدید و پریشانی کے طلاق مانگے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔“(ابن ماجہ، ابوداود، ترمذی)

خُلع کا مطالبہ کرنے والی عورت منافق ہے

ضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:”شوہر سے علیحدگی چاہنے والی خُلع کا مطالبہ کرنے والی عورت منافق ہے۔” (مشکوہ۔ نسائی)

شوہر کی بلااجازت نکلنے پر لعنت

ابن عمر سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”جب عورت شوہر کی ناراضگی میں نکلتی ہے تو آسمان کے سارے فرشتے اور جس جگہ سے گزرتی ہے ساری چیزیں انسان جن کے علاوہ سب لعنت کرتے ہیں۔“(طبرانی۔ ترغیب)

کثرت سے بچے جننے والی عورت

حضرت معقل سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:”تمہاری عورتوں میں بہتر وہ ہے جو خوب محبت کرنے والی اور کثرت سے اولاد جننے والی ہو۔” (بیہقی۔ کنز۔ جامع صغیر)

عبداللہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”خوبصورت بانجھ عورت کو چھوڑ دو اور کالی بچے جننے والی عورت کو اختیار کروکہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا۔” (اتحاف المہرہ۔ ابویعلی)

عورت کا گھر سے باہر نکلنا

ابن عمر سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “عورت پردہ ہے اور عورت جب گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانکتا ہے۔ عورت کے یے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ تقرب یہ ہے کہ وہ گھر کے کسی گوشہ میں رہے۔” (ترمذی۔ طبرانی۔ کنز)

ابن عمر سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”عورتوں کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں مگر شدید ضرورت کی بنیاد پر۔” (طبرانی ۔ کنزالعمال)

عورتوں کا تنہا سفر کرنا

ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:”کوئی عورت سفر نہ کرے ہاں مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو۔” (طحاوی۔ بخاری)

بناوٴ سنگھار کرنے والی عورتیں

میمونہ بنت سعدی سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا: “جو عورت اپنے شوہر کے علاوہ زینت و سنگھار کر کے چلی، قیامت کے دن سخت ظلمت و تاریکی میں رہے۔” (ترمذی۔ جامع صغیر)

ابوموسی سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “جب عورت عطر لگا کر لوگوں کے پاس گزرے تاکہ لوگ اس کی خوشبو سے محظوظ ہوں تو وہ زانیہ ہے۔” (کنزالعمال)

عورت کے لیے دو ہی محفوظ مقام ہیں

ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: “عورتوں کے یے دو ہی مقامات قابل ستر ہیں۔ ایک شوہر کا گھر اور دوسرا قبر۔” (کنزالعمال)

شوہر کے بھائی کے متعلق حکم

عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “خبردار عورتوں کے پاس آنے جانے سے بچو۔ ایک انصاری نے پوچھا دیور کے متعلق کیا حکم ہے (وہ بھابھی کے پاس نہ آئے جائے)۔ آپ ﷺم نے فرمایا وہ تو موت ہے۔” (بخاری)

گھر کی کھڑکیاں، روشندان اور سوراخ

امام غزالی سے مروی ہے کہ حضرات صحابہ گھر کی کھڑکیاں اور روشندان جس سے باہر نظر آئے بند فرما دیا کرتے تھے تاکہ عورتیں باہر مردوں کو نہ جھانک سکیں۔

حضرت معاذ بن جبل نے دیکھا کہ ایک عورت گھر کی کھڑکی سے باہر مردوں کو جھانک رہی ہے تو اسے انہوں نے پیٹا۔ (اتحاف السادہ۔ شرح احیاء)

قبروں، مزاروں پر جانے والی عورتیں

ابن عباس سے مروی ہے کہ:” آپ ﷺ نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو قبروں پر جانے والی ہیں۔” (ابو داود۔ ابن ماجہ)

عبدالرحمن بن حسان سے مروی ہے کہ: “آپﷺ نے مزاروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔” (ابن ماجہ)

عورت اور جوتی کا استعمال

ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ: “بی بی عائشہ سے پوچھا گیا عورتیں جوتا پہن سکتی ہیں؟ انہوں نے کہا رسول پاک نے لعنت فرمائی ہے ان پر جو عورتیں مرد کی مشابہت اختیار کرتی ہیں۔” (ابو داود۔ مشکوہ)

عورتوں کا پاجامہ اور ٹخنے

انس بن مالک سے مروی ہے کہ: “آپﷺنے بی بی فاطمہ کو ایڑی کی جانب سے ایک بالشت کی اجازت دی اور فرمایا عورتوں کا کپڑا اتنا لٹکے۔ یعنی ٹخنے کو چھپائے۔” (مجمع الزوائد)

عورت کے لیے امارت و دنیاوی عہدہ

حضرت ابوبکرہ سے مروی ہے کہ: “جب رسول اللہ کو خبر ملی کہ اہل فارس نے کسری کی بیٹی کو تخت شاہی پر بٹھایا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے اپنا حاکم اور والی عورت کو بنایا۔” (بخاری۔ ترمذی۔ مشکوہ)

عورتیں اور جہنم

ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “ننانوے(99)عورتوں میں سے ایک عورت جنت میں جائے گی اور باقی جہنم میں۔” (ابوالشیخ۔ کنزالعمال)

عمران بن حصین سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “جنت میں رہنے والی عورتیں کم ہوں گی (یعنی مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ جہنم میں ہوں گی)۔” (بخاری)

عورت اور فتنہ

اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “میں نے اپنے بعد عورتوں کے فتنہ سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں چھوڑا جو مردوں کو تکلیف دہ ہو۔” (مشکوہ)

ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا: “دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو۔ بنی اسرائیل میں پہلا فتنہ عورتوں کے سبب سے تھا۔” (مشکوہ)

عورت اور نحوست

ابن عمر سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “نحوست تین چیزوں میں ہے۔ عورت، گھر اور گھوڑے میں۔” (مشکوہ۔ ابن ماجہ)

عبداللہ ابن عمر سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا: جب تم میں سے کوئی بیوی، خادم یا جانور حاصل کرے تو اسکی پیشانی پکڑ کر کہے: “اے اللہ میں اس کی بھلائی آپ سے مانگتا ہوں۔ آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس کے شر سے اور اس کی خلقت و طبیعت کے شر سے۔” (ابن ماجہ)

عورت کو مارنا پیٹنا

اشعث بن قیس سے روایت ہے کہ: “حضرت عمر نے دعوت کے روز جب رات ڈھلنے لگی تو آپ نے کھڑے ہو کر اپنی عورت کو مارا۔ میں ان دونوں کے درمیان آگیا۔ جب وہ اپنے بستر پر جانے لگے تو مجھ سے کہا: یاد رکھ! نبی ﷺ فرماتے تھے کہ مرد سے اپنی بیوی کو مارنے کے متعلق سوال نہ کیا جائے گا۔” (ابن ماجہ)

عورت حجاب اور مساوات

یہ درست نہیں کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کے ماننے والے اپنی عورتوں کے لیے حجاب اور دوپٹے کا اہتمام کرتے ہیں۔

یہ روایت میسوپوٹیمیا، سومریوں، بابلیوں، آشوریوں اور قدیم یونان میں بھی پائی جاتی تھی کہ خواتین گھر سے نکلتے وقت سر ڈھانپا کرتی تھیں، سر کو کھلا چھوڑنا ایک کبیرہ گناہ سمجھا جاتا تھا جو زنا کے برابر تھا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والی عورت کو سخت سزا دی جاتی تھی۔

یہودی شریعت کی تکمیل کے لیے بھی تلمود اور مدراش میں خواتین کے سر ڈھانپنے کے احکامات موجود ہیں۔

حجاب ایک قدیم یہودی روایت ہے جو بعد میں ایک مذہبی فریضہ بن گئی، دونوں صورتوں میں یہ بات مُسلم ہے کہ یہ روایت قدیم یہودی معاشروں میں بدرجہ اتم موجود تھی۔

تلمود یہودی خواتین پر حجاب فرض کرتا ہے جس کے بغیر انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں، اور شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ خلاف ورزی کرنے پر وہ اپنی بیوی کو بغیر کسی قسم کے اخراجات ادا کیے طلاق دے دے، یہودی علماء کے نزدیک عورت کا سر ننگا کرنا ایسا ہی ہے گویا اس نے اپنے جنسی اعضاء نمایاں کردیے ہوں۔

ڈاکٹر مناحیم بریر جو جامعہ یشیوا میں توراتی ادب کے استاد ہیں اپنی کتاب ربانی ادب میں یہودی عورت کا مقام میں کہتے ہیں کہ خواتین کا سر ڈھانپنا یہودیوں کے ہاں ایک پختہ روایت تھی جو بعض اوقات پورے چہرے پر محیط ہوتا تھا اور دیکھنے کے لیے محض ایک آنکھ کے لیے ایک سوراخ چھوڑا جاتا تھا، جلالیب کی آیت کی حضرت ابن عباس بھی کچھ ایسی ہی تفسیر کرتے ہیں۔
ذیل میں کچھ قدیم یہودی علماء کے اقوال نقل ہیں:

بناتِ اسرائیل کی یہ شان نہیں کہ وہ ننگے سر باہر نکلیں

وہ مرد ملعون ہے جو اپنی عورت کا سر ننگا چھوڑے

جو عورت اپنے بالوں کو ذاتی زینت بنائے وہ فاقوں کا سبب بنتی ہے

یہودی شریعت میں نمازیں اور دعائیں کسی ننگے سر کی عورت کی موجودگی میں قبول نہیں ہوتیں کیونکہ اسے عریانیت سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سر کھلا چھوڑنے کی پاداش میں یہودی خواتین کو چار سو زوزیم (100 شیکل) جرمانہ کیا جاتا تھا، اس کے برعکس فاحشاؤں اور طوائفوں کو یہودی معاشرے میں سر ڈھانپنے کی اجازت نہیں تھی تاکہ آزاد اور غلام عورتوں میں فرق کیا جاسکے۔

یہودیوں کے ہاں عورت کے حجاب کی حیثیت ایک دائمی سوگ کی سی ہے جو عورت کو ہماری پہلی ماں حواء کے سیب کھانے کی عظیم غلطی کی شرمندگی کا احساس دلاتی ہے، یہی وجہ ہے یہودی خواتین پابندی سے سر ڈھانپتی ہیں۔

کچھ ممالک میں جیسے یوکرین اور ہنگری میں آرتھوڈکس یہودی خواتین اپنی شادی کے وقت گنجی ہوجاتی تھیں اور سر کو رومال سے باندھ دیتی تھیں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ شادی کی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے دوران سر کے بال غلطی سے بھی ظاہر نہ ہوسکیں۔

جب کچھ شوہروں نے اس طرزِ عمل پر اعتراض کیا کہ اس طرح عورت کی خوبصورتی شدید متاثر ہوتی ہے تو اٹھارویں صدی میں یہودی خواتین نے اپنے گنجے سروں پر وگ پہننا شروع کردی، تاہم غیر آرتھوڈکس خواتین مذہبی رسومات کے وقت صرف سر ڈھانپنے پر ہی اکتفاء کرتی ہیں۔

یکم جنوری 2008 کو امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر ڈیلس میں یاسر عبد السید نامی ایک ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی دونوں بیٹیوں 17 سالہ سارہ اور 18 سالہ امینہ کو اس لیے قتل کردیا کیونکہ ان بچیوں نے حجاب پہننے سے انکار کردیا تھا، اس نے اپنی دونوں بیٹیوں پر اس وقت گولی چلائی جب وہ کسی ہوٹل کے باہر ٹیکسی پر سوار تھیں۔

اس کے کچھ عرصہ بعد ٹورانٹو کینیڈا میں محمد پرویز نامی ایک 57 سالہ پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی زیرِ تعلیم بیٹی کو اپنی دیگر کلاس فیلوز لڑکیوں کی طرح حجاب نہ پہننے کے سبب قتل کردیا۔

ایران کے ایک عالم غلام رضا حسانی نے اپنے جمعے کے ایک خطبے میں یہ فتوی صادر فرمایا کہ حجاب نہ پہننے والی خواتین کو قتل کردینا چاہیئے، انہوں نے انقلاب کے بعد ایران میں بے پردہ خواتین کے زندہ ہونے پر تعجب کا اظہار کیا۔

طالبان کے افغانستان میں بے پردہ خواتین کو گولی مار دی جاتی تھی۔

جزیرہ نُما عرب میں ظہورِ اسلام سے قبل حجاب یا نقاب کا رواج نہیں تھا، مسلمانوں میں حجاب مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے اور وہاں کے یہودیوں کے ساتھ گھلنے ملنے کے بعد متعارف ہوا۔

جب جنگوں سے مسلمان طاقتور ہوگئے اور غلاموں اور کنیزوں کی ریل پیل ہوگئی تو آزاد اور غلام مرد وخواتین میں تفریق کی ضرورت آن پڑی۔

لہذا آزاد مرد مونچھیں منڈواتے اور داڑھی بڑھاتے اور خواتین حجاب یا نقاب پہنتیں، تفسیر الطبری کے مطابق حضرت عمر جب کسی غلام عورت کو پردے میں دیکھتے تو اسے دُرے مارتے تاکہ آزاد خواتین کے لباس کی حفاظت کی جاسکے جیسا کہ یہودی کرتے تھے۔

ذیل میں اسلام میں حجاب اور اس کی اہمیت پر کچھ ائمہ کرام کے اقوال نقل ہیں:

1۔مفسرِ قرآن وصحابی رسول حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: اللہ نے مؤمنین کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ اگر وہ کسی ضرورت کے تحت گھر سے نکلیں تو اپنے چہروں کو جلابیب سے سر کے اوپر سے ڈھانپیں اور صرف ایک آنکھ ظاہر کریں۔

2۔امام یحیی بن سلام التیمی البصری القیروانی فرماتے ہیں: جلباب ایک لباس ہے جس سے عورت پردہ کرتی ہے۔

3۔امام ابو المظفر السمعانی فرماتے ہیں: عورت کو چاہیئے کہ وہ اپنے جلباب سے اپنا سر، چہرہ اور سارا بدن ڈھانپے سوائے ایک آنکھ کے۔

4۔امام بغوی فرماتے ہیں: مؤمنین کی عورتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کو وہ جلباب سے اپنے سر اور چہرے ڈھانپیں سوائے ایک آنکھ کے تاکہ پتہ چلے کہ وہ آزاد ہیں۔

5۔امام العز بن عبد السلام فرماتے ہیں: جلباب وہ لباس یا نقاب یا ہر وہ لباس ہے جو عورت اپنے کپڑوں کے اوپر پہنتی ہے اور اپنا جسم اور چہرہ ڈھانپتی ہے تاکہ وہ نظر نہ آئے سوائے ایک آنکھ کے۔

اسی طرح باقی کی کوئی 41 تفاسیر پر قیاس کرتے چلے جائیے جو ساری کی ساری ہماری بہو بیٹیوں سے نقاب کا مطالبہ کرتی ہیں، یہ ساری تفسیریں یا تاویلیں سورہ احزاب کی آیت نمبر 59 کی ہیں:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا
اے پیغمبر ﷺ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہدو کہ باہر نکلا کریں تو اپنے چہروں پر چادر لٹکا کر گھونگھٹ نکال لیا کریں۔ یہ چیز انکے لئے موجب شناخت و امتیاز ہو گی تو کوئی انکو ایذا نہ دے گا۔ اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔

ابنِ کثیر اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: مدینہ کے فاسق لوگ رات کو نکلتے، اگر پردے والی کوئی عورت دیکھتے تو کہتے: یہ آزاد ہے، اور اس سے باز رہتے، اور اگر بغیر پردے کے کسی عورت کو دیکھ لیتے تو کہتے: یہ لونڈی ہے، اور اس پر حملہ کردیتے۔

سورہ احزاب کی آیت 33 بھی زیادہ تر مفسرین کے بقول اس لیے نازل ہوئی تھی کہ کفار مؤمنین کی عورتوں اور رسول اللہ کی بیویوں کو چھیڑنے لگے تھے۔

لہذا گھر میں رہنے اور حجاب پر زور دیا گیا تاکہ مؤمنین اور خاص کر رسول اللہ کی بیویوں کا پتہ نہ چلے اور وہ کسی طرح کی چھیڑ خانی سے بچ سکیں، یہ حجاب صرف آزاد عورتوں پر فرض کیا گیا تھا لونڈیوں اور کنیزوں پر نہیں، حضرت عمر نے جب ایک لونڈی کو با حجاب دیکھا تو اس پر تشدد کرتے ہوئے کہا کہ: کیا تم آزاد عورتوں سے مشابہت اختیار کرتی ہو؟؟

1659کو ہندوستان کے عسکری قائد افضال خان نے پنجاب کے راجہ شیوا پر حملے سے قبل اپنی 63 بیویوں کو اس ڈر سے قتل کردیا کہ اگر کہیں وہ جنگ میں مارا گیا تو کوئی اور اس کی بیویوں سے شادی نہ کر لے، قرآن کے مطابق رسول اللہ کی بیویوں پر بھی ان کی وفات کے بعد شادی حرام تھی۔

آخر مرد حجاب ونقاب سے عورت کی شخصیت کو مٹانے پر کیوں تلا ہوا ہے؟ کیا اس کی وجہ مذہبی تحریریں ہیں یا پھر یہ کوئی نفسیاتی معاملہ ہے کہ آخر مرد ہی ساری صعوبتیں برداشت کرتا اور گھر کا خرچ اٹھاتا ہے اس لیے سارے حقوق صرف اسی کے لیے ہیں اور عورت کو محض اس کی اندھی اطاعت کرنی چاہیئے، مرد اپنی عورتوں کو نقاب کے پیچھے چھپانا چاہتا ہے تاکہ اسے گھر میں قید کر سکے ان کی تعلیم اور معاشی خود مختاری پر قد غن لگا سکے۔

مرد کی نظر میں عورت جانور اور انسان کے بیچ کی کوئی انسان نُما مخلوق ہے جسے وہ جب چاہے مار کر اور طلاق دے کر گھر سے نکال سکتا ہے اور بغیر کسی پوچھ گچھ کے کسی اور کے ساتھ گھر بسا سکتا ہے، گویا عورت اس کی جنسی خواہشات کی تکمیل اور بچے پیدا کرنے کی مشین کے سوا کچھ نہیں، جنت میں بھی اس کی یہی حالت برقرار رہتی ہے، مرد حوروں سے لطف اندوز ہوتا ہے اور وہ محض اسی سابقہ شوہر کے زیرِ نگیں رہتی ہے۔

اگر عورت تعلیم حاصل کر کے معاشی خود مختاری حاصل کر لے تو ایسی صورت میں مرد کی مردانگی اور اس کی وراثتی معاشرتی حیثیت خطرے میں پڑ جاتی ہے، ایسی صورت میں وہ عورت کے ساتھ پہلے کی طرح کنیزوں والا رویہ نہیں اپنا سکتا جو کہ اس کی عادت رہی ہے، اس لیے عورت کی شخصیت کو حجاب ونقاب میں مٹانا ضروری ہوجاتا ہے، یہ مرد کے لیے ایک شافی نفسیاتی علاج ہے، یہی وجہ ہے جو طالبان کو مبالغہ آرائی کی حد تک عورت دشمن بنا دیتی ہے اور وہ نقاب وحجاب کے شرعی ہتھیار سے لیس ہوکر معاشرے سے اسے غائب کرنے کی مہم پر نکل کھڑے ہوتے ہیں، جب افغانستان میں انہیں اقتدار نصیب ہوا تو سب سے پہلا کام جو انہوں نے کیا وہ لڑکیوں کے سکول اور کالج بند کروانا اور نقاب کو لازمی قرار دینا تھا، خلاف ورزی کرنے والی کی سزا موت تھی، بیواؤں کو کام کرنے سے روک دیا گیا اور انہیں گھروں میں رہنے پر مجبور کردیا گیا جس کی وجہ سے ہزاروں خواتین اپنے بچوں سمیت بھوکوں مر گئیں۔

دسمبر 2006 میں مشرقی افغانستان میں طالبان نے ایک پورے خاندان کو محض اس لیے قتل کردیا کیونکہ انہوں نے اپنے گھر کے اندر بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوشش کی تھی، قبل ازیں طالبان نے 20 مرد وخواتین پر مشتمل اساتذہ کو گھروں میں بچیوں کو پڑھانے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، کشمیر میں اسلام پسندوں نے سکول جاتی بچیوں پر تیزاب پھینک کر ان کے چہرے مسخ کردیے، 1998 میں الجزائر میں اسلام پسندوں نے سکول جانے کی پاداش میں 300 بچیوں کو قتل کردیا۔

آزادی فکر اور ارادے کی ہوتی ہے جب تک کہ وہ قانون کے دائرے میں رہے، عورت کی آزادی کی مخالفت کرنے والے بعینہ وہی منطق استعمال کرتے ہیں جو وہ آزادیء صحافت، آزادیء اظہار رائے اور دیگر تمام آزادیوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں، مسلم ممالک کی طرف دیکھیئے، آپ کو عورت مرد کی غلام نظر آئے گی اور مرد حاکم، مرد اپنے گھر میں ظالم ہے اور گھر کے باہر مظلوم ہے، مغربی ممالک کی طرف دیکھیئے، آپ کو حکومتیں آزادی اور انسانی حقوق کے قاعدے لاگو کرتی نظر آئیں گی، عورت کی قدر ومنزلت احترام کی بلندیوں کو جا پہنچی ہے۔

مغربی اقوام کی بھی اخلاقیات اور اقدار ہیں، وہ صفائی پسند ہیں اور جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں، وعدہ کرتے ہیں تو وفا کرتے ہیں، ان پر یہ الزام کہ وہ مسلم معاشروں سے فکری طور پر پسماندہ ہیں غیر منصفانہ اور بے بنیاد الزام ہے، اگر آپ مسلم معاشروں کی اخلاقیات پر غور کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان کی اخلاقیات صرف ایک چیز کے گرد گھومتی ہے اور وہ ہے عورت، مسلم اقوام کو عورت کے برقع اور کنوارے پن کا گویا خبط ہے۔

مغرب کی اخلاقیات کے اسباب علمی ہیں مذہبی نہیں، اخلاقیات پر ارسطو کی پوری ایک کتاب ہے جس میں ثواب اور آخرت میں سزا کا ایک بھی لفظ نہیں ہے، ہر فلسفی نے اخلاقیات کے موضوع کو فلسفیانہ پہلو سے دیکھا ہے، درست فہم اور معرفت کے بغیر اخلاق ایک عارضی حالت بن جاتے ہیں اور جلد ہی زوال پذیر ہوجاتے ہیں۔

مغرب میں عورت کی آزادی اور غلامی کا خاتمہ مذہبی وجوہات کی بنا پر نہیں ہوا، مساوات کے اسباب بھی مذہبی نہیں، رنگ ونسل کی تفریق کا خاتمہ بھی مذہبی بنیادوں پر نہیں کیا گیا، یہ سب سیاسی اور معاشرتی علوم میں ترقی کے سبب ہوا، مغرب میں مساوات تب لاگو کی گئی جب اقوامِ مغرب کو یہ یقین ہو چلا کہ یہ مساوات معاشرے کی ترقی اور سلامتی کے لیے بے حد ضروری ہے۔

 

‘Combating The Appeal Of ISIS-Debate in NYT’

(It is worth reading debate in in today’s NYT on similar topic like ‘ Why some American Muslims fall prey to extreme ideology of violence?’)

Muqtedar Khan teaches at the University of Delaware. He is a co-founder of the Delaware Council for Global and Muslim Affairs and is on Twitter.

How can we wrap our minds around the perverse appeal of ISIS to youth growing up in modern, liberal and democratic societies of the West? What is it that compels a young woman in Paris or a well-established young professional in California to eschew the fruits of modernity and liberalism, to join a radical movement that is so brutal and inhuman that even Al Qaeda finds it repellent?

According to some, these youth have embraced an ideology, a radicalized interpretation of Islam, that teaches gratuitous violence against unbelievers. Their policy solutions — profiling Muslims, making a registry of all Muslim-American, closing mosques, etc. — seem as arbitrary as the violence.

Others argue that when Muslim youth in the West — who are experiencing racism, Islamophobia and socio-economic marginalization or already alienated from their home communities — see a movement that is fighting Western imperialism, such as support for Israel and invasion of Iraq, they run to join it in the hope that they will earn victory in this world and in the next.

Finding real policy solutions won’t work until we subject modernity to a fundamental scrutiny. Why are youth in the West, where there are religious and political freedoms, equality and economic opportunity, turning away? The key question here is not what is the appeal of ISIS but rather why has the American dream and the promise of Western liberalism lost its appeal?

The answer is that modernity promises much more than it delivers and hence ultimately engenders disenchantment.

Muslims were told that if they embraced modernity they would become free and prosperous. But modernity has failed many Muslims in the Muslim World. It brought imperialism, occupation, wars, division and soul stifling oppression by home states and foreign powers. Today the most important element of modernity, the modern state, is crumbling across the Arab World, precipitating chaos and forcing Muslims to seek refuge abroad.

For Muslims in the West, unjust foreign policies of their new homes, persistent and virulent Islamophobia, state surveillance, discrimination and demonization can be at best alienating and at worst radicalizing. Perhaps it is those whom modernity has failed at home and abroad who are tempted by the fatal attraction of extremism.

But why Muslims only you might ask? My answer: Open your eyes and look, modernity is failing non-Muslims too. Egregious income inequalities, police brutality, rampant institutionalized racism, mass-killings, drugs, gang violence, sexual predatory behaviors, militarization of police, diminishing civil rights as the state becomes more intrusive and rising rhetoric of intolerance from mainstream politicians — they are symptoms of institutional failures, extremism and even domestic terrorism.

We can combat extremism only by recognizing and resisting it everywhere. But we must make the promise of modernity a reality for all in order to render the appeal of radical utopias less attractive.

Read views of other writers by clicking on the link below:

http://www.nytimes.com/roomfordebate/2015/12/06/how-can-america-counter-the-appeal-of-isis/this-is-what-happens-when-modernity-fails-all-of-us

“Why Some Muslims in America Fall Prey To Extreme Ideology of Violence” By F. Sheikh

There could be different factors involved in rest of the West, but this article deals mainly from American perspective. Recent study by the George Washington University, From Retweet To Raqqa, concludes that there is no specific profile of a Muslim terrorist and they come from all demographics. They are not necessarily raised as religious fanatics, uneducated or disadvantaged as one might expect. As per study 40 % are under the age of 21 year. I think the proper question is not what motivates them, rather what makes them vulnerable to extreme ideology of violence? Many experts are still at loss to answer this question. There may be some other factors, but I think, unfortunately one of the major contributing factor is that Muslims are living in a  charged anti-Muslim environment that makes them feel insecure, depressed and marginalized. It is especially true of teenagers. Some teenagers sense additional pressure of feeling different from their peers, and even target of anti-Muslim insults, ridicule and taunts from their own friends. It can lead to alienation, isolation and being bottled up in anger. Teenagers usually do not want to talk about it at home because they do not want to upset their parents. If teenagers do not have an outlet to express their feelings and anger at the dinner table at home or in Muslim community centers, unfortunately this bottled up anger and alienation may make them vulnerable and prime target of extreme nihilistic ideology like ISIS.

 Although Muslim adults have more capacity to absorb such pressures, but for some who face discrimination, ridicule and insults at job may react the same way as teenagers does.

Sometimes the situation described above may get worse if the discussion at home or Islamic centers is ‘limited’ to grievances against the West’s part in the creation of Al-Qaeda, Taliban (Use of Taliban freedom fighters-Jihadis to defeat Russia in Afghanistan), ISIS by military misadventure in Iraq and support of repressive regimes in Muslim lands. This discussion limited to just grievances sometime may leave the wrong impression on alienated teenager or adult of justifying the violent acts of Al-Qaeda and ISIS, and which may re-enforce the already bottled up anger and might even inflame it further.

As American citizens, there is nothing wrong in disagreeing with the policies of the West and USA, and many Americans do, but grievances discussion must always be followed by a strong and clear emphasis that to bring the change in situation and policies is possible only through political process and not by the violence as advocated by the extreme ideologies like ISIS. This change through politics and community involvement was achieved by minorities like Jews, Irish and Catholics who faced similar hostility as Muslims are facing today.  In 2012, Douglas Saunders wrote in NYT in his article ‘Catholics Then, Muslims Now’;

 “As late as 1950, 240,000 Americans bought copies of “American Freedom and Catholic Power,” a New York Times best seller. Its author, Paul Blanshard, a former diplomat and editor at The Nation, made the case that Catholicism was an ideology of conquest, and that its traditions constituted a form of “medieval authoritarianism that has no rightful place in the democratic American environment.”

 The hostility against Catholics was so virulent that many liberals, including Bertrand Russel, supported the above view. Catholics, Jews and other minorities were able to overcome this hostility and become part of American fabric by involvement in politics and community works like building charity hospitals, Museums, colleges and universities.

I strongly feel having such discussions at dinner tables and in Islamic Centers, including Sunday schools and emphasizing on right course of action through political process and community involvement will provide the opportunity to some of the teenagers and adults who feel alienated and bottled up to open up and prevent them following a wrong path-and may also lead to some observation that who needs more help and attention. Such discussions will help regardless the cause of alienation and anger.

There is a great fear in Muslim communities that any such open discussions may lead to some misunderstandings by the law enforcement officials with untoward repercussions. Many Muslims are afraid to write even ‘terrorist’ in their emails that it may trigger automatic surveillance. These fears may well be true and not without foundations, but remaining behind the bunkers carries even more disastrous consequences both for current and future Muslim generations.

 

Fayyaz Sheikh

  

 

What is general relativity? by David Tong

It is one of the best simple understandable explanation from Newton’s law of gravity to Einstein’s theory of general relativity, Watch video below or continue to read below(f.sheikh).

The general theory of relativity describes the force of gravity. Einstein wasn’t the first to come up with such a theory — back in 1686 Isaac Newton formulated his famous inverse square law of gravitation. Newton’s law works perfectly well on small-ish scales: we can use it to calculate how fast an object dropped off a tall building will hurtle to the ground and even to send people to the Moon. But when distances and speeds are very large, or very massive objects are involved, Newton’s law becomes inaccurate. It’s a good place to start though, as it’s easier to describe than Einstein’s theory.

Suppose you have two objects, say the Sun and the Earth, with masses $m_1$ and $m_2$ respectively. Write $r$ for the distance between the two objects. Then Newton’s law says that the gravitational force $F$ between them is

\[ F=G_ N\frac{m_1 m_2}{r^2}, \]

where $G_ N$ is a fixed number, known as Newton’s constant.

The formula makes intuitive sense: it tells us that gravity gets weaker over long distances (the larger $r$ the smaller $F$) and that the gravitational force is stronger between more massive objects (the larger either of $m_1$ and $m_2$ the larger $F$).

Different force, same formula

There is another formula which looks very similar, but describes a different force. In 1785 the French physicist Charles-Augustin de Coulomb came up with an equation to capture the electrostatic force $F$ that acts between two charged particles with charges $Q_1$ and $Q_2$:

\[ F = \frac{1}{4 \pi \epsilon _0} \frac{Q_1 Q_2}{r^2}. \]

Here $r$ stands for the distance between the two particles and $\epsilon _0$ is a constant which determines the strength of electromagnetism. (It has the fancy name permittivity of free space.)

The problem with Newton

Newton’s and Coulomb’s formula are nice and neat, but there is a problem. Going back to Newton’s law, suppose you took the Earth and the Sun and very quickly moved them further apart. This would make the force acting between them weaker, but, according to the formula, the weakening of the force would happen straight away, the instant you move the two bodies apart. The same goes for Coulomb’s law: moving the charged particles apart very quickly would result in an immediate weakening of the electrostatic force between them.

But this can’t be true. Einstein’s special theory of relativity, proposed ten years before the general theory in 1905, says that nothing in the Universe can travel faster than light — not even the “signal” that communicates that two objects have moved apart and the force should become weaker.

Why we need fields

This one reason why the classical idea of a force needs replacing in modern physics. Instead, we need to think in terms of something — new objects — that transmit the force between one object and another. This was the great contribution of the British scientist Michael Faraday to theoretical physics. Faraday realised that spread throughout the Universe there are objects we today call fields, which are involved in transmitting a force. Examples are the electric and magnetic fields you are probably familiar with from school.

EinsteinAlbert Einstein (1879-1955) in 1921.

A charged particle gives rise to an electric field, which is “felt” by another particle (which has its own electric field). One particle will move in response to the other’s electric field — that’s what we call a force. When one particle is quickly moved away from the other, then this causes ripples in the first particle’s electric field. The ripples travel through space, at the speed of light, and eventually affect the other particle. In fact, the particle that is moved also generates a magnetic field and emits electromagnetic radiation. The end result is a complex interaction of rippling fields — but the point is that the force is really one particle being affected by ripples propagating through the field of the other.

It took scientists a long time to fully develop this field picture of electromagnetism. The main credit goes to the Scottish scientist James Clerk Maxwell, who not only realised that the electric and magnetic forces were two aspects of a unified force of electromagnetism, but also replaced Coulomb’s simple law of electrostatics with four equations that describe how electric and magnetic fields respond to moving charged particles. Maxwell’s four formulae are some of the most amazing equations in physics because they capture all there is to know about electricity and magnetism.

Gravity and spacetime

So what about gravity? Just as with electromagnetism there needs to be a field giving rise to what we perceive as the gravitational force acting between two bodies. Einstein’s great insight was that this field is made of something we already know about: space and time. Imagine a heavy body, like the Sun, sitting in space. Einstein realised that space isn’t just a passive by-stander, but responds to the heavy object by bending. Another body, like the Earth, moving into the dent created by the heavier object will be diverted by that dent. Rather than carrying on moving along a straight line, it will start orbiting the heavier object. Or, if it is sufficiently slow, will crash into it. (It took Einstein many years of struggle to arrive at his theory — see this article to find out more.)

Another lesson of Einstein’s theory is that space and time can warp into each other — they are inextricable linked and time, too, can be distorted by massive objects. This is why we talk, not just about the curvature of space, but about the curvature of spacetime.

The equation

The general theory of relativity is captured by a deceptively simple-looking equation:

\[ R_{\mu \nu } - \frac{1}{2}Rg_{\mu \nu } = \frac{G_ N}{8 \pi c^4}T_{\mu \nu }. \]

Essentially the equation tells us how a given amount of mass and energy warps spacetime. The left-hand side of the equation,

\[ R_{\mu \nu } - \frac{1}{2}Rg_{\mu \nu }, \]

describes the curvature of spacetime whose effect we perceive as the gravitational force. It’s the analogue of the term $F$on the left-hand side of Newton’s equation.

The term $T_{\mu \nu }$ on right-hand side of the equation describes everything there is to know about the way mass, energy, momentum and pressure are distributed throughout the Universe. It is what became of the term $m_1 m_2$ in Newton’s equation, but it is much more complicated. All of these things are needed to figure out how space and time bends. $T_{\mu \nu }$ goes by the technical term energy-momentum tensor. The constant $G_ N$ that appears on the right-hand side of the equation is again Newton’s constant and $c$ is the speed of light.

What about the Greek letters $\mu $ and $\nu $ that appear as subscripts? To understand what they mean, first notice that spacetime has four dimensions. There are three dimensions of space (corresponding to the three directions left-right, up-down and forwards-backwards of space) and one dimension of time (which only has one direction). If you want to understand how a moving bit of mass affects spacetime, you need to understand how it affects each of those four dimensions and their various combinations.

(As an analogy, think of the way you’d describe an object moving at constant speed along a straight line in Newton’s classical physics. You need two pieces of information: the direction and the speed of the motion. The direction is given by three numbers, each telling you by how much the object moves in each of the three directions of space. Therefore, the motion is described by a total of four numbers, three relating to space and one giving the speed. Since speed is distance covered per unit time, we need three bits of information relating to space and one to time, in order to describe the motion.)

Click link below for full article;

https://plus.maths.org/content/what-general-relativity