Shared by Iqbal Sheikh!
قبل از اسلام کے عربوں کی جاہلیت، بد تہذیبی ، برائی، بیوقوفی جہالت کی کہانیاں جھوٹ کے پلندے کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ ان وقتوں کا مکّے کا سماجی ڈھانچہ ایک قبائلی طرز پر تھا، جس میں اپنے وقتوں کی خامیوں کے ساتھ خوبیاں بھی تھیں۔ جن میں مہمان نوازی، فیاضی، وفاداری اور میدان جنگ میں شجاعت کو اہم سمجھا جاتا تھا۔ عربوں کی شاعری اپنی عورتوں کی خوبصورتی، وقار اور اپنے قبیلے کی امن اور جنگ کی حالت میں اپنے قبیلے کی شجاعت اور اقدار سے متعلق ہوا کرتی تھی۔ شاعری پر صرف مردوں ہی کی اجارہ داری نہیں تھی، بلکہ عورتیں بھی شاعری کرتی تھیں۔
عصماء بنت مروان اور فرزانہ
عصماء بنت مروان ایک شاعرہ تھی۔ اس کا تعلق قبیلہ اوس کی شاخ بنو خطمہ سے تھا، وہ یزید بن زید بن حصن الخطیمی کی بیوی تھی۔ ان وقتوں میں مدینہ کی عورتیں سماجی طور پر کس قدر متحرک تھیں عصماء اس کی زریں مثال ہے۔عبداللہ بن خطل کی کنیز فرزانہ تھی۔ یہ دونوں آپؐ کی ہجو لکھا کرتی تھیں۔ بدوی عرب معاشرے میں شاعروں کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ شاعر ات و شعراءاپنے قبیلے کی اجتماعی روح کے ترجمان کا کردار ادا کرتے تھے۔ اور ان کے ادا کردہ الفاظ بہت زیادہ تاثیر کے مالک ہوتے تھے۔ پسندیدہ یا ناپسندیدہ فعل اور کیفیت کا اظہار اشعار کی صورت میں کیا جاتا تھا، کسی بھی ناپسندیدہ شخصیت کی “ہجو” لکھنا بہت عام سی بات تھی۔ شاعروں کو اپنے وقتوں کے نقاد، صحافی یا تاریخ دان بھی کہا جا سکتا ہے۔ شاعری کی اسی قوت کی وجہ سے نبی کریم شاعری کو بہت ناپسند فرماتے تھے۔
“ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا، اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا پیٹ پیپ سے بھر لے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اشعار سے بھر جائے“۔ (صحیح بخاری، کتاب الادب، حدیث نمبر 6155
ہند بنت عتبہ ہند بنت عتبہ قریش کے سب سے بڑے سردار عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی تھی۔ ہند کی پہلی شادی فقیہ بن مغیرہ سے ہوئی، جس سے اس کا بیٹا ابان پیدا ہوا۔ فقیہ سے طلاق لے کر ہند نے ابو سفیان سے شادی کی۔ غزوہ بدر میں ہند کا باپ عتبہ، بھائی ولید، چچا شیبہ اور چچا زاد حنظلہ ہلاک ہوئے۔ ہند ان کے سوگ میں کئی دنوں تک صحراء میں اپنے منہ اور بالوں میں مٹی ڈالے بین کرتی رہی۔ تا آنکہ اس کے خاوند ابو سفیان نے اسے یقین نہ دلایا کہ وہ اس کے رشتہ داروں کے قتل کا بدلہ لے گا۔ اپنے شوہر کے وعدے کے باوجود ہند نے اپنے بدلے کی آگ ٹھنڈی کرنے کیلئے جبیر بن مطعم کے وحشی نامی غلام کی خدمات حاصل کیں۔
ان وقتوں میں جب بھی کوئی جنگ ہوتی تو قریش کی عورتیں اپنے مردوں کے ساتھ میدان میں جنگ میں جایا کرتی تھیں۔ میدان جنگ میں رجز گا کر حوصلہ بڑھانے، زخمیوں کی دیکھ بھال اور مرہم پٹی کرنے کے علاوہ عورتوں کی جنگ میں موجودگی کے پیچھے یہ سوچ کام کر رہی ہوتی تھی کہ ان کی موجودگی میں ان کے مرد دلیری سے لڑیں گے اور میدان سے نہیں بھاگیں گے۔ ہند غزوۂ احد میں ایک زخمی شیرنی کی طرح بے چینی سے گھوم رہی تھی۔ جب بھی وحشی کے پاس سے گزرتی تو اسے کہتی “اے ابو وسمہ تو میرا دل ٹھنڈا کر اور اپنا دل بھی ٹھنڈا کر“۔ جب جنگ شروع ہو گئی تو ہند اپنی ساتھی عورتوں کے ساتھ مردوں کے پیچھے کھڑی ہو گئی اور دف بجا کا یہ گانا شروع کر دیا۔
“ہم رات کو آنے والوں کی بیٹیاں ہیں، ہم لوگ تکئے پر چلتے ہیں۔ اگر آگے بڑھو گے تو ہم گلے لگائیں گی اور گدے بچھائیں گی، اگر منہ موڑو گے بغیر کسی خیال کے قطع تعلق کر دیں گی۔ اے بنو عبدالدار، اے پشت بچانے والو، شمشیر براں سے مارو“۔
وحشی بھالا پھینکنے کا بہت ماہر تھا، اس نے ایک درخت کی آڑ لے کر اپنا بھالا پھینکا جو حمزہ کے پیٹ کے پار ہو گیا۔ جونہی ہند نے یہ منظر دیکھا تو خوشی سے بے اختیار اپنا بازو بند، ہنسلی اور کان کی بالیاں اتار کر وحشی کو دے ڈالیں۔ اور ایکدم سے ایک چٹان پر چڑھ گئی اور رجز گانے شروع کر دیئے۔
“جنگ بدر کا بدلہ ہم نے چکا دیا، اور جنگ کے بعد جنگ بھڑکتی ہے۔ میں شیبہ، ولید، عتبہ اور بکر کے قتل پر صبر نہ کر سکی۔ میں نے اپنے دل کی کدورت نکال لی ہے۔ اور نذر پوری کر لی ہے۔ اے وحشی تو نے میرے سینے کی سوزش کو شفا بخشی۔ وحشی کا شکر پوری زندگی مجھ پر واجب ہے۔ یہاں تک کہ قبر میں میری ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں“۔ (تاریخ ابن کثیر)
مسلمانوں نے 630ء میں مکہ پر قبضہ کیا۔ ہند کے شوہر ابوسفیان بن حرب نے نہ صرف خود بغیر لڑے ہتھیار ڈالے بلکہ قریش مکہ کو بھی لڑنے سے روکا، اور انہیں اپنے گھروں کے دروازے بند رکھنے، کعبہ یا اپنے خود کے گھر میں پناہ لینے کی ہدایت کی۔ یہ دن ہند کی زندگی کا تاریک ترین دن تھا۔اپنے گھر میں پناہ کے لئے آتے لوگوں کو دیکھ کر اس کے غصے کی کوئی انتہاء نہیں تھی۔ آخر اس کا ضبط کا بند ٹوٹ گیا اور اس نے آگے بڑھ کر اپنے شوہر ابو سفیان کی مونچھیں پکڑ لیں اور گھر کے صحن میں جمع لوگوں کو مخاطب کر کے اپنے شوہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا “خنزیر کی گندی چربی سے بنے غبارے کی طرح اس پھولے ہوئے پیٹ والے کو قتل کر دو جو ایک ذرا سا لشکر دیکھ کر حواس باختہ ہو گیا“۔ لیکن سوائے ایک آدھ کے کسی نے بھی مسلمانوں کے لشکر کا سامنا کرنے کی ہمت نہ کی اور مکّہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔
فتح مکہ کے بعد جب آپ مردوں سے بیعت لے چکے تو عورتوں سے بیعت لینی شروع کی۔ ان عورتوں میں ہند کو بھی لایا گیا جو گھونگھٹ نکالے بیٹھی تھی۔ جب اس کی باری آئی تو اس کا گرم صحرائی خون اس قدر ابل رہا تھا کہ اس نے اس بات کی قطعاً پرواہ نہ کی کہ وہ اس وقت اپنے وقت کے فاتح سلطان کے ساتھ مکالمہ کر رہی ہے۔ اور اس کی ذرا سی بے احتیاطی اسے موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہے۔ بیعت لیتے ہوئے آپؐ نے فرمایا: نبی: عہد کرو کہ تم خدائے واحد کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناؤ گی۔ ہند: تم ہم سے ایسی بات کا اقرار لے رہے ہیں، جس کا اقرار تم نے مردوں سے نہیں لیا۔ نبی:اس بات کا عہد کرو کہ چوری نہیں کرو گی۔ ہند: ابو سفیان ایک کنجوس آدمی ہے، بقدرے کفالت خرچہ نہیں دیتا۔ میں صرف اپنا خرچہ چراتی ہوں نبی: یہ چوری نہیں ہے نبی: عہد کرو کہ تم زنا نہیں کرو گی ہند: کیا شریف عورتیں زنا کرتی ہیں۔ نبی: عہد کرو کہ تم اپنے بچوں کو قتل نہیں کرو گی ہند: کیا تم نے بدر میں کوئی ہمارا بچہ چھوڑا ہے جسے ہم قتل کر سکیں۔ ہم نے تو بچوں کو پالا پوسا اور جب وہ جوان ہوئے تو تم نے انہیں مار ڈالا۔تم نے بدر کے روز باپوں کو قتل کیا اور اب تم ہمیں ان کے بچوں کے متعلق نصیحتیں کر رہے ہو۔
صحرائی خون کی یہ گرمی صرف ہند تک ہی محدود نہ تھی۔ بدوی معاشرے میں جہاں فیاضی اور مہمان نوازی وغیرہ کو بہت سراہا جاتا تھا۔ وہیں میدان جنگ میں شجاعت کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اپنے قبیلے کی شجاعت کے قصے شاعروں کا مقبول موضوع ہوتا تھا۔ غزوہ بدر میں بہت سے قریش مکہ قیدی ہو گئے تھے۔ ان میں ابو یزید سہیل بن عمرو نامی قیدی بھی شامل تھا۔ اس کے دونوں ہاتھ رسی کے ساتھ گردن سے بندھے ہوئے تھے۔ اور وہ نبی کریم کے ایک حجرے کے ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا۔ جب ام المومنین سودۃ بنت زمعۃ کی نظر ان پر پڑی، تو وہ چند لمحوں کیلئے بھول گئیں کہ وہ ام المومنین ہیں اور یہ قریشی اب ان کا دشمن ہے اور بے اختیار ان کے منہ سے نکلا۔
“اے ابو یزید تم لوگوں نے اپنے ہاتھ پاؤں دوسروں کے اختیار میں دے دیئے۔ تم لوگ عزت کی موت مر کیوں نہ گئے“۔ نبی کریم نے فرمایا، اے سودۃ کیا عز و جلال والے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت پر ابھار رہی ہو۔ ام المومنین نے کہا، یا رسول اللہ، اس ذات کی قسم ہے، جس نے آپ کو حق پر مبعوث فرمایا ہے۔ جب میں نے ابو یزید کے ہاتھوں کو اس کے گلے میں بندھے پایا، تو میں اپنے آپ کو سنبھال نہ سکی اور یہ بات کہہ دی“۔ (ابن اسحاق، سیرۃ رسول اللہ)
فاطمہ بنت ربیعہ فاطمہ بنت ربیعہ المعروف ام قرفہ کا تعلق بنو فزارا نام کے بت پرست قبیلے سے تھا۔ وہ بارہ بیٹوں اور ایک انتہائی خوبصورت بیٹی کی ماں تھی۔ ام قرفہ وادی القریٰ کے ارد گرد کے تقریبا سو دیہات کی مشترک سردارنی/ رئیسہ تھی۔ اس کے سماجی مرتبے کے اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کے گھر میں پچاس سے زیادہ تلواریں لٹکی ہوئی تھیں، جو مختلف قبائل کے سرداروں نے اسے عزت کے طور پر نذر کی تھیں۔ ایک روایت کے مطابق اگر کہیں دو قبیلے آپس میں لڑ پڑتے تھے تو انہیں لڑائی سے روکنے کیلئے ام قرفہ کا دوپٹہ بھیجا جاتا تھا، جسے نیزے پر گاڑ کر میدان جنگ میں نصب کر دیا جاتا تھا، جس کے بعد لڑائی فوراً ختم ہو جاتی تھی۔
“راوی کہتا ہے کہ ام قرفہ اپنی قوم میں اس قدر بلند مرتبہ سمجھی جاتی تھی کہ لوگ تمنا کیا کرتے تھے کہ ہم کو ام قرفہ کی سی عزت نصیب ہو “۔ (ابن اسحاق، سیرۃ رسول اللہ)
غزوہ خندق کے بعد مسلمان بہت طاقتور ہو چکے تھے، لہذا انہوں نے ارد گرد کی بستیوں پرحملے شروع کردیئے۔ انہی حملوں میں ایک وادی القریٰ کے علاقے پر تھا۔ اس حملے کی سربراہی کے متعلق دو روایات ہیں۔ ابن اسحاق کی سیرۃ اور تاریخ طبری کے مطابق اس کی سربراہی زید بن حارثہ نے کی۔ جبکہ دوسری روایت کی بنیاد صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے۔ جس کے متعلق یہ حملہ حضرت ابو بکر کی سربراہی میں ہوا۔
“اس واقعہ کے متعلق عبدالرحمن بن ابی بکر سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے زید بن حارثہ کو وادی القریٰ بھیجا۔ وہاں بنو فزارا سے ان کی مڈ بھیڑ ہوئی۔ ان کے بہت سے ساتھی شہید ہوئے۔ اور خود زید بھی مقتولین کے درمیان سے سخت مجروح اٹھائے گئے۔ اس واقعہ میں بنو بدر کے ایک شخص کے ہاتھ سے بنو سعد بن ہذیم کے ورد بن عمر مارے گئے۔ مدینہ آ کر زید نے عہد کیا کہ تا وقتیکہ وہ بنو فزارا پر چڑھائی نہ کر لیں، غسل جنابت بھی نہیں کریں گے۔ جب وہ اپنے زخموں سے صحت یاب ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک فوج کے ساتھ بنو فزارہ کے ساتھ لڑنے کیلئے بھیجا۔ وادی القریٰ میں حریفوں کا مقابلہ ہوا۔ زید نے ان کے بہت سے آدمی قتل کر دیئے۔ قیس بن المسحر الیعمری نے معدہ بن حکمہ بن مالک بن بدر کو قتل کر دیا۔ اور ام قرفہ فاطمہ بن ربیعہ بن بدر کو جو مالک بن حذیفہ بن بدر کی بیوی تھی گرفتار کر لیا۔ یہ ایک بہت سن رسیدہ عورت تھی۔ اس کے ہمراہ اس کی ایک بیٹی اور عبداللہ بن معدہ بھی گرفتار ہوا۔ زید کے حکم سے ام قرفہ کو نہایت بے دردی سے اس طرح قتل کیا گیا کہ اس کے دونوں پیروں میں رسیاں باندھی گئیں اور پھر اسے دو اونٹوں کے درمیان لٹکا کر ان اونٹوں کو ہانکا گیا۔ جس سے اس کے دو ٹکڑے ہو گئے “۔ (طبری:تاریخ الامم و الملوک)
“ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوا کہ اہل فارس نے کسریٰ کی لڑکی کو وارث تخت وتاج بنایا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنا حکمران کسی عورت کو بنایا ہو”۔ ((صیح بخاری، کتاب المغازی۔حدیث نمبر: 4425
“عورت ہونا یا پیرانہ سالی، کچھ بھی ام قرفہ کو دردناک موت سے بچا نہ سکا۔ اس کی ٹانگیں دو مختلف اونٹوں سے باندھی گئیں، اور ان اونٹوں کو مختلف سمتوں میں دوڑایا گیا۔ جس نے اسے دو حصوں میں پھاڑ دیا۔ اسی خاندان کے دو بھائیوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔ زید واپسی پر جلدی سے محمد سے ملا جو اسکی ذہانت کی داد دینے کیلئے اسقدر بے چین تھا کہ صحیح طرح سے کپڑے بھی نہیں پہنے تھے۔ مہم کی کامیابی کا سن کر اس نے اسے ( زید) کو گلے لگا کر چوما۔ ہم نے نہیں سنا کہ نبی نے ام قرفہ کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک پر ناراضگی کا اظہار کیا ہو۔ ام قرفہ کی بیٹی، محمد کو ایک باندی کے طور پر دے دی گئی، جو اس نے اپنے ایک ماننے والے کو دے دی “۔ (ولیم میور، دی لائف آف محمت اینڈ ہسٹری آف اسلام ٹو دی ایرا آف ہیجرہ۔ والیوم چہارم)
درج ذیل حدیث دوسری روایت کو بیان کرتی ہے، جس کے مطابق ام قرفہ کی بیٹی کو اہل مکہ کے حوالے کیا جاتا ہے، تاکہ اس کے بدلے مسلمان قیدیوں کو رہا کروایا جائے۔
“سیدنا ایاس بن سلمہ اپنے والد سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے (قبیلہ) فزارہ سے جہاد کیا اور ہمارے سردار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے جنہیں ہمارا امیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنایا تھا۔ جب ہمارے اور پانی کے درمیان میں ایک گھڑی کا فاصلہ رہ گیا (یعنی اس پانی سے جہاں قبیلہ فزارہ رہتے تھے)، تو ہم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے پچھلی رات کو اتر پڑے۔ پھر ہر طرف سے حملہ کرتے ہوئے پانی پر پہنچے۔ وہاں جو مارا گیا سو مارا گیا اور کچھ قید ہوئے اور میں ایک گروہ کو تاک رہا تھا جس میں (کافروں کے) بچے اور عورتیں تھیں میں ڈرا کہ کہیں وہ مجھ سے پہلے پہاڑ تک نہ پہنچ جائیں، میں نے ان کے اور پہاڑ کے درمیان میں ایک تیر مارا، تو تیر کو دیکھ کر وہ ٹھہر گئے۔ میں ان سب کو ہانکتا ہوا لایا۔ ان میں فزارہ کی ایک عورت تھی جو چمڑا کا جبہ پہنے ہوئے تھی۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی جو کہ عرب کی حسین ترین نوجوان لڑکی تھی۔ میں ان سب کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس لایا، تو انہوں نے وہ لڑکی مجھے انعام کے طور پر دے دی۔ جب ہم مدینہ پہنچے اور میں نے ابھی اس لڑکی کا کپڑا تک نہیں کھولا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بازار میں ملے اور فرمایا کہ اے سلمہ! وہ لڑکی مجھے دیدے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم وہ مجھے بھلی لگی ہے اور میں نے ابھی تک اس کا کپڑا تک نہیں کھولا۔ پھر دوسرے دن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں ملے اور فرمایا کہ اے سلمہ! وہ لڑکی مجھے دیدے اور تیرا باپ بہت اچھا تھا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! وہ آپ کی ہے۔ اللہ کی قسم میں نے تو اس کا کپڑا تک نہیں کھولا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لڑکی مکہ والوں کو بھیج دی اور اس کے بدلہ میں کئی مسلمانوں کو چھڑایا جو مکہ میں قید ہو گئے تھے”۔ (صیح مسلم، باب۔ انعام اور قیدیوں کے بدلے مسلمانوں کا چھڑانا، حدیث نمبر: 1145)
سجاح بنت حارث مسلمان قبل از اسلام کی عورت کی حالت کی ابتری بیان کرتے وقت بہت شدّ و مد سے دعویٰ کرتے ہیں کہ زمانہ قبل از اسلام میں والدین بچیوں کو پیدائش کے فوراً بعد زندہ دفن کر دیا کرتے تھے، اور اس دعوی کیلئے قبیلہ بنو تمیم کا خصوصی طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔ سجاح بن حارث بن سوئید اُسی بنو تمیم نامی بدنام قبیلے میں پیدا ہوئی اور مسلمانوں کے دعوے کے برعکس نہ صرف زندہ رہی بلکہ مردوں کو اپنے قدموں میں جھکایا۔ سجاح کا باپ بنو تمیم کی شاخ بنو تربوع سے تھا جبکہ اس کی ماں بنو تغلب نامی عیسائی قبیلے سے تعلق رکھتی تھی۔ سجاح ایک فال گیر تھی اور اس کا دعویٰ تھا کہ وہ پیغمبرہ ہے اور اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔ جب اس نے قریش مکہ کو ارد گرد کی بستیوں پر قبضہ کرتے دیکھا تو اپنی وحی کو قبیلے کے سامنے پیش کرتے ہوئے اس نے کہا:
“اے اہل ایمان آدھی دنیا ہماری ملکیت ہے۔ دوسرا آدھا حصہ قریش کا ہے، لیکن وہ اپنی حد سے تجاوز کر گئے ہیںِ“۔ (کتاب الاغانی: ابوالفرج اصفہانی)
جب سجاح نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو مالک بن نویرہ، عطارد بن حاجب سمیت بنو تمیم کے کئی بڑے سرداروں نے اسے اپنی نبیہ تسلیم کیا۔ عطارد بن حاجب نے سجاح کے بارے میں کہا۔ ” ہمارا نبی عورت ہے، ہم نے اس کا احاطہ کیا ہوا ہے اور لوگوں کے انبیا مرد ہیں “۔
نبوت کا اعلان کرنے کے بعد سجاح نے مالک بن نویرہ سے رابطہ کیا،جسے نبی کریم نے بنو تمیم کا سردار مقرر کیا تھا۔ مالک نے مسلمانوں کو چھوڑ کر سجاح کی قیادت تسلیم کر لی۔ سجاح نے ارد گرد کے قبیلوں پر حملے شروع کر دیئے۔ رباب نامی قبیلے پر حملہ کرنے پر سجاح نے الہامی پیرایہ میں یہ جملے کہے۔
“سواریاں تیار رکھو، غارت گری کے لئے تیار ہو جاؤ، پھر رباب پر غارت گری کرو، کیونکہ ان کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہے “۔ (طبری: تاریخ الامم و الملوک)
سجاح کی کامیابیوں کے باعث بنو تمیم کےقیس بن عاصم، احناف بن قیس، جنگجو حارث بن بدر جیسے نامور لوگ بھی سجاح کے ساتھ شامل ہو گئے۔ سجاح نے بنو تمیم کے حلیف قبیلوں پر بھی چڑھائی کی لیکن نیاج کے مقام پر اس کا بہت زیادہ نقصان ہوا اور صلح پر مجبور ہو نا پڑا۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور جلد ہی اپنا لاؤ لشکر اکٹھا کر کے کہا:“یمامہ چلو، کبوتر کی طرح اڑتے ہوئے، یہ لڑائی فیصلہ کن ہو گی اور اس کے بعد تم پر کوئی ملامت نہیں رہے گی “۔
سجاح اس کے بعد یمامہ کی طرف بڑھی جہاں مسیلمہ نامی نبوت کا ایک اور دعویدار تھا۔ مسیلمہ اس وقت ثمامہ بن أثال سے جنگ میں مصروف تھا، جس کی پشت پناہی عکرمہ بن ابوجہل کی زیر سرکردگی مسلمان کر رہے تھے۔ سجاح کی تیز رفتار پیش قدمی سے پریشان ہو کر مسیلمہ نے سجاح کی جانب صلح کا ہاتھ بڑھایا، اور اسے “خدا کی زمین” سے حصہ دینے کے وعدے کے علاوہ اسے خدا کی پیغمبرہ بھی تسلیم کر لیا۔
“آدھی زمین ہماری اور آدھی زمین قریش کی ہوتی، اگر برابر تقسیم کی جائے، لہذا اب قریش کا حصہ بھی اللہ نے تمہیں دیا ہے، لہذا اسے بخوشی قبول کرو“۔
“تمہارے رب نے تمہیں دیکھا، تم پر سلامتی بھیجی اور وحشت کو تم سے دور کر دیا۔ اور آخرت کے دن وہ تم کو آتش دوزخ سے بچا کر حیات دوام عطا فرمائے گا۔ نیک لوگوں کی دعائیں ہمارے لئے ہیں، جو نہ شقی ہیں نہ بدکار جو تمام رات اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اور دن کو روزہ رکھتے ہیں تمہارے رب کیلئے، جو مالک ہے بادلوں کا اور بارشوں کا“۔ (محمد بن جریر الطبری: تاریخ الامم و الملوک)
کچھ تاریخ کی کتابوں کے مطابق سجاح نے مسیلمہ سے شادی کر لی۔ اور اس نے یمامہ کی فصلوں سے آدھا حصہ خراج کے طور پر وصول کیا اور واپس چلی آئی۔ واپسی پر سجاح کا سامنا خالد بن ولید سے ہوا اور شکست کھا کر اس کی جماعت منتشر ہوگئی۔ سجاح شکست کھانے کے بعد بنی تغلب کے جزیرہ میں جا بسی، تا آنکہ معاویہ بن ابو سفیان نے قحط سالی کے زمانہ میں اسے کوفہ میں ٹھہرایا، یہاں اس نے اسلام قبول کر لیا۔
قبل از اسلام کی عرب عورتیں بناؤ سنگھار کرتی تھیں، جسم پر نقش و نگار بنوانا بہت عام تھا۔ لیکن عورتیں اپنی سجاوٹ کے باوجود مردوں کی ہوس بھری نگاہ سے بچنے یا زیادتی کے ڈر سے حجاب نہیں اوڑھتی تھیں۔ اور نہ ہی پردے کا کوئی تصور تھا۔ عورت اگر چاہے تو اپنی عزت لٹنے کے ڈر کے بغیر، ننگے طواف کعبہ کر سکتی تھی۔ سلمہ، قتیلہ اور خدیجہ کی مثالوں سے واضع ہوتا ہے کہ عورتیں جائیداد کی وارث بنتی تھیں۔ متمول عورتیں آزادانہ طور پر تجارت کرتی تھیں، اور اس کے لئے مردوں کو ملازم رکھتی تھیں ۔ اپنی مرضی سے شادی کرتی تھیں۔ اور بڑی آسانی سے مرد کو چھوڑ بھی سکتی تھیں ۔ مردوں کو کسی کو چھوڑنے کیلئے تیں بار طلاق کے لفظ کی سہولت اور عورتوں کو طلاق کیلئے انتہائی مشکل عمل وجود میں نہیں آیا تھا ۔ عورتیں سردار بھی تھیں اور حاکم بھی۔ عام عورتیں امن کے علاوہ جنگ میں بھی مردوں کا ساتھ دیتی تھیں۔جہاں وہ رجز گا کر مردوں کا حوصلہ بڑھاتی تھیں، اور زخمی ہو جانے والوں کی دیکھ بھال اور مرہم پٹی کرتی تھیں۔
عورتوں کو صرف سماجی طور پر ہی نہیں بلکہ مذہبی زندگی میں اس کی اہمیت کچھ یوں واضع ہوتی ہے کہ تمام بُت جن کی پرستش کی جاتی تھی ان میں سب سے اہم عورتوں کے بت تھے۔ مکہ میں عزیٰ، طائف میں لات اور مدینہ میں منات سب سے زیادہ مقبول دیویاں تھیں۔ ان مورتیوں کو سب سے زیادہ احترام دیا جاتا تھا جبکہ اللہ نام کا خدا جو ان کا باپ تھا وہ تین میں تھا نہ تیرہ میں۔
قبل از اسلام کی بچیوں کو زندہ دفن کرنے کا دعویٰ انتہائی احمقانہ ہے۔ اگر عرب لوگ اپنی بیٹیاں دفن کر دیا کر دیتے تھے تو پیدائش کے وقت دفن کی جانے والی بچیوں کو کیا مرد جنم دیا کرتے تھے، اگر ان بچیوں کو جنم دینے والی مائیں مرد نہیں بلکہ عورتیں تھیں، تو وہ اپنے بچپن میں دفن ہونے سے کیوں کر بچ گئیں۔ اگر بیٹیاں دفن کر دی جاتی تھیں تو عرب شادی کے لئے لڑکیاں کیا دوسرے ممالک سے درآمد کرتے تھے۔ یا جو بچے پیدا ہوتے تھے وہ بڑے ہو کر مرد بننے کی بجائے لڑکیاں بن جاتے تھے۔ مکہ میں کثیر الازواجی ایک عام سی بات تھی۔ حضور کے پردادا ہاشم کی پانچ بیویاں تھیں، آپ کے دادا عبدالمطلب کی چھ بیویاں تھیں۔ آپ کے والد عبداللہ کی صرف ایک بیوی تھی لیکن اس کی وجہ مکہّ میں عورتوں کی کمیابی نہیں بلکہ عبداللہ کا جلدی فوت ہو جانا ہے، اگر آپ کے والد زندہ رہتے تو اپنے وقتوں کے مطابق ان کی بھی کئی بیویاں ہوتیں۔ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ سب لوگ تو نہیں لیکن اکثریت بیٹیاں دفن کرتی تھی تو ایسی صورت میں بھی لڑکیوں کا تناسب مردوں کی نسبت اتنا کم ہونا چاہیئے تھا کہ بہت سے مرد مل کر ایک عورت کے ساتھ شادی کرتے۔ جبکہ معاملہ اس کے برعکس تھا۔ اگر کوئی ایک آدھ واقعہ ایسا ہوا بھی ہو۔ تو اس کی وجہ بچے کی جنس کی بجائے قحط کے نتیجے کی بدحالی ہوسکتی ہے، جس کی تصدیق موجودہ قرآن بھی کرتا ہے۔
وَلاَ تَقْتُلُوۤاْ أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئاً كَبِيراً
“اور نہ کرو قتل تم اپنی اولاد کو ڈر سے افلاس کے، ہم ہی رزق دیتے ہیں انہیں بھی اور تمہیں بھی،بیشک ہے ان کا قتل کرنا جرم بڑا”۔ (سورۃ بنی اسرائیل، آیت نمبر 31)
فاتح جب بھی اپنے مفتوح کی تاریخ لکھتے ہیں تو وہ مفتوح قوم میں دنیا بھر کے عیب گنواتا ہے اور اپنی تہذیب کو انتہائی نہ صرف افضل گردانتا ہے بلکہ مفتوح سے بھی یہی منواتا ہے۔آپ ؐ کے بعد یہی کچھ مسلمانوں نے کیا ہے، اسلام جب دنیا میں پھیلا تو ایک سے ایک بہترین سماجی، معاشی و مذہبی نظام ثابت کرنے کیلئے قبل از اسلام کے کھاتے میں ہر ممکنہ برائی ڈال دی گئی۔ کسی ایک آدھ انفرادی واقعے کی بنیاد پر پورے ایک عہد کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا ایسے ہی ہے جیسے مستقبل کا کوئی مؤرخ لکھے کہ پاکستانی مرد عورتوں کے چہروں پر تیزاب پھینک دیا کرتے تھے۔ جو باوجود سچ ہونے کے ایک انفرادی فعل ہے اور کسی بھی طور مجموعی معاشرے کی نمائندگی نہیں کرتا۔