And God Created Woman

….

Shared by Iqbal Sheikh!

And God Created Woman

“اور خدا نے عورت کو بنایا”
Anderson Shaw

مگر کیا خدا مرد ہے؟

سنۃ 1956ء میں فرانسیسی فلم   “اور خدا نے عورت کو بنایا” ریلیز ہوئی ۔ اسی فلم سے بریجٹ بارڈونامی قاتل حسینہ پہلی بار عالمی سینما میں متعارف ہوئی اور ساٹھ کی دہائی کی جنسی علامت

 (sex symbols)

کے طور پر ابھری۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس فلم نے امریکی سینما کا رخ ہی بدل دیا جس نے میرلین مونرو کو متعارف کرا کر فرانسیسیوں کو بھرپور جواب دیا۔

اس فلم پر کیتھولک چرچ نے کافی شور مچایا، دراصل یہ فلم کسی بھی طرح سے فرانسیسی سینما کی نمائندگی نہیں کرتی تھی، نہ کہانی اور نا ہی اس کا انداز تاہم بارڈو کا شوہر راجر ویڈیم جو فلم کا ڈائریکٹر تھا اس فلم میں اپنی بیوی کا حسن اچھی طرح نمایاں کرنے میں کامیاب رہا، اس خوش قسمت آدمی نے یکے بعد دیگرے دنیا کی خوبصورت ترین عورتوں سے شادی کی، بریجیٹ بارڈو کے علاوہ اس نے جین فونڈا

اور کینڈی ڈارلنگ سے بھی شادی کی اور کئی سال کیتھرین ڈینیوکے ساتھ مفت میں گلچھرے اڑاتے ہوئے گزارے۔

بہرحال ہم اب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر خدا نے عورت کو بنایا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ مرد ہے؟

تاریخ میں زیادہ تر مذاہب نے خدا کو تمام تر مردانہ خصوصیات سمیت ایک بھرپور مرد کے طور پر پیش کیا، اس خدا کی داڑھی تھی، مسل تھے اور بعض اوقات جنسی اعضاء بھی، ابراہیمی یا توحیدی کہلائے جانے والے مذاہب جن میں یہودیت، اسلام اور عیسائیت شامل ہیں خدا ہمیشہ ایک مرد سے ملتا جلتا رہا۔

مذہبی فکر خدا کی جنس کے حوالے سے کافی خلفشار کا شکار رہی ہے خاص طور سے یہ ابراہیمی مذاہب جب ان کا سامنا کلاسیکی یونانی فلسفے سے ہوا، یونانیوں کے ہاں خدا مرد  و زن پر مشتمل تھے اور ہر ایک کا اپنا ایک کام تھا مگر ان ابراہیمی مذاہب نے ان سب خداؤوں کو ایک ہیرو میں مدغم کرنا چاہا۔مرد  و زن، خیر وشر حتی کہ وہ مسخ شُدہ شکل سامنےآئی جو اب ہمارے سامنے ہے۔وحید یا یکجائی کے خیال کی کنفیوزن میں ان تینوں مذاہب نے خدا کو بیچ والا بنا کر بے جنس کردیا یعنی نا مرد اور نا ہی عورت۔

عیسائیوں کی اس ویب سائٹ پر  اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے:

سوال: کیا خدا مرد ہے یا عورت؟

جواب: مقدس کتاب میں غور کرنے سے ہم پر دو حقیقتیں منکشف ہوتی ہیں: پہلی حقیقت یہ ہے کہ خدا روح ہے، اس کی کوئی صفات یا بشری حدود نہیں ہیں، دوسری حقیقت یہ ہے کہ تمام دلائل اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ خدا نے خود کو انسانیت کے سامنے ایک مرد کی شکل میں ظاہر کیا، شروع میں ہمیں خدا کی حقیقی نیچر کو سمجھنا چاہیئے، خدا ایک شخص ہے، یہ واضح ہے کہ اس کے پاس ایک شخص کی سی صفات ہیں جیسے عقل، ارادہ سمجھداری اور جذبات، اور خدا انسانوں سے رابطہ میں رہتا ہے اور ان سے تعلقات قائم رکھتا ہے اور یہ کہ خدا کے ذاتی اعمال مقدس کتاب کے ذریعے واضح ہیں۔

اس جواب سے پتہ چلتا ہے کہ عیسائیت خدا کو مرد سمجھتی ہے کیونکہ اس کی تجلی مرد کی صورت ہوئی نہ کہ عورت کی صورت میں ۔ایک اور جگہ کسی نے  سورہ اخلاص کا یہ پوسٹ مارٹمکیا ہے:

خدا نے اپنے بارے میں کہا ہے کہ اس نے ولادت نہیں کی (لم یلد) اور نا ہی اس کی ولادت ہوئی (ولم یولد) ولادت عورت کی خصوصیات میں سے ہے چنانچہ خدا عورت کی صنف میں سے ہے کیونکہ وہ قابلِ ولادت ہے اور چونکہ اس نے ابھی تک ولادت نہیں کی (لم یلد) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مستقبل میں ولادت نہیں کرے گا خاص طور سے سورت کا خطاب ماضی میں ہے۔

بہرحال مسلمان خدا کی جنس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے کہ ہی (یا شی) نا مرد ہے اور نا ہی عورت اور اس کے جیسا کچھ نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پھر خدا کے تمام ننانوے نام مذکر کی صفت میں کیوں آئے ہیں اگر وہ مرد نہیں ہے تو؟ کیا سوواں نام مؤنث تھا اور ہمیں نہیں بتایا گیا؟

ریت کے خدا کی جنس کے تعین میں یہ تضاد اور انکار کیوں ہے؟ میں نے اس مدعے کے تضادات پر کافی غور وخوض کیا ہے، کیا اس لیے کہ خدا کامل اور پرفیکٹ ہے اور کمال مرد کی صفات میں سے ہے کیونکہ عورت کا کمال آدھا ہے اور وہ مرد کی نصف ہے؟

میرا خیال ہے کہ محمدی دعوت کے آغاز میں خدا واضح طور پر ایک مرد تھا مگر یونانی فلسفے کے اثر کی وجہ سے مؤمنین خدا کی مردانہ حیثیت سے دستبردار ہوگئے اور اسے ایک “بے جنس” ہستی بنا دیا گیا تاکہ اس کے کمال کو بغیر تضادات کے مکمل کیا جاسکے۔ مگر کیا اس سے مسئلہ حل ہوگیا؟

سورۃ الانعام کی آیت 101 میں فرمایا گیا ہے کہ:

بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمۡ تَکُنۡ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ ؕ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ
وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اسکے اولاد کہاں سے ہو جبکہ اسکی بیوی ہی نہیں اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔

تو پھر “اسکے اولاد کہاں سے ہو جبکہ اسکی بیوی ہی نہیں” کا کیا مطلب ہے؟ یہی کہ وہ مرد ہے اور اگر وہ کوئی بیوی اختیار کر کے اس کے ساتھ سیکس کرے تو اس کے ہاں اولاد ہوسکتی ہے! یوریکا.. وہ یقیناً مرد ہی ہے، سورہ اخلاص میں “لم یلد” سے اس کی مراد یہ تھی کہ وہ مرد ہے اس لیے اس کے ہاں ولادت نہیں ہوتی مگر وہ ابھی تک کنوارہ ہے اور اس نے شادی نہیں کی ہے

لہذا جب وہ شادی کرے گا تب اس کے ہاں اولاد ہونا عین ممکن ہے۔

مؤمنین جب خدا کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو ہمیشہ مذکر ضمائر کا ہی استعمال کرتے ہیں، وہ اسے ہمیشہ “ہو” کہتے ہیں ناکہ “ہی” اور اگر خدا بغیر جنس کے ہے تو کبھی مذکر (ہو) اور کبھی مؤنث (ہی) کا استعمال کیوں نہیں کیا جاتا؟ یا لغت میں ایک اور ضمیر شامل کیوں نہیں کیا جاتا؟یقین کریں اگر کوئی خدا کے لیے مذکر کی بجائے مؤنث کا ضمیر استعمال کرے تو مؤمنین کو سخت غصہ آجائے گا، مگر کیوں؟ اس کی صرف دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں:

اول: یہ غصہ اس بات کی دلیل ہے کہ مؤمنین خدا کو مرد سمجھتے ہیں اور اسے مؤنث ضمیروں سے مخاطب کرنے کو اس کی توہین سمجھتے ہیں۔

دوم: انہیں واقعی یقین ہے کہ خدا بے جنس ہے، مگر اس کی تانیث کو وہ اس کی توہین سمجھتے ہیں، ان کے لیے خدا کا مذکر ہونا ایک اچھی اور مثبت بات ہے مگر اس کی تانیث ان کے ہاں منفی اور نا قابلِ قبول ہے۔

جو بھی ہو، دونوں صورتیں اپنے اندر عورت کی تذلیل اور توہین لئے ہوئی ہیں، اور اس سے مؤمنین کا یہ دعوی کہ “اسلام نے عورت کو عزت دی ہے” پاش پاش ہوجاتا ہے۔

اصل موضوع کی طرف پیش قدمی سے پہلے ایک نظر اسلام  میں عورت کے مقام پرڈالنا بہت ضروری ہے۔

اسلام میں عورت کا مقام

عصر حاضر میں اسلام میں عورت کے معاشرتی و سماجی کردار کے حوالے سے کافی سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور مسلم دنیا خود اس معاملہ میں ابہام کا شکار ہے۔ ایک سوچ کو افغانستان میں طالبان نے رائج کیا اور اس کو عین اسلامی بتایا۔ لیکن مسلم دنیا کے ایک طبقہ نے اس سوچ کو اسلامی تعلیمات سے متصادم قرار دیا۔ اسی طرح سعودیہ، ایران اور چند دیگر عرب ممالک میں بھی عورت کے معاشرتی اور سماجی کردار کے حوالے سے سنجیدہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ طالبان، عربوں اور سعودیہ کے اسلامی سماجی ڈھانچے میں عورت کے استحصال پر اٹھنے والے سوالات کے جواب میں لبرل مسلمان طبقہ اس استحصال کو پشتون و عرب روایات سے جوڑ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اسلامی تعلیمات سے اس استحصال کا کوئی تعلق نہیں اور عورتوں پہ جو پابندیاں عائد ہیں وہ طالبان اور عرب کی خود ساختہ پابندیاں ہیں۔

آیئے! ہم جاننے کی کوشش کریں کہ عورت کے معاشرتی و سماجی کردار کے حوالے سے پیغمبرِاسلام خود کیا سوچ رکھتے تھے اور اس موضوع پر امت کے لیے ان کے کیا احکامات و ارشادات موجود ہیں۔ جبکہ طالبان اور عرب معاشروں میں عورت کے استحصال کا حقیقی ذمہ دار کون ہے؟

جنتی کون ہے؟

 حضرت انس سے روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایا کہ آج تم کو جنتی عورت کے بارے میں نہ بتا دوں وہ کون ہے؟ ہم نے کہا ضرور تو آپ نے فرمایا! شوہر پر فریفتہ ہونے والی، زیادہ بچے جننے والی، جب یہ غصہ ہو جائے، یا اسے کچھ برا بھلا کہہ دیا جائے، یا اس کا شوہر ناراض ہو جائے، تو یہ عورت (شوہر کو راضی کرتے ہوئے) کہے میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں ہے میں اس وقت نہ سووٴں گی جب تک کہ تم خوش نہ ہو جاوٴ۔” (ترغیب ج ٣ ص ٣٧)

صالح اور نیک عورتیں بہت کم ہیں

بی بی عائشہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا مومنہ عورت کی مثال عورتوں میں ایسی ہے جیسا کہ کووٴں میں وہ کوا جس کے ایک پر میں سفیدی ہو۔” (مطالب عالیہ ج ٢ ص ٢١)

عورتوں کا جہاد گھریلو کام ہے

حضرت انس سے روایت ہے کہ:”عورتوں نے آپ ﷺ سےکہا کہ اے رسول اللہ جہاد کرنے سے مرد تو فضیلت لوٹ لے گئے۔ ہم عورتوں کے لیے بھی کوئی عمل ہے جس سے جہاد کی فضیلت ہم پاسکیں۔ آپ نے فرمایا ہاں گھریلو کام میں تمہارا لگنا یہ جہاد کی فضیلت کے برابر ہے۔” (مطالب عالیہ ج ٢ ص ٣٩)

شوہر کی اطاعت ہر حال میں لازم

بی بی عائشہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “اگر آدمی اپنی بیوی کو حکم دے کہ وہ جبل احمر (پہاڑ) کو جبل اسود کی طرف منتقل کرے۔ یا جبل اسود (پہاڑ) کو جبل احمر کی طرف منتقل کرے، اس کا حق ہے کہ وہ ایسا کرے۔” (ابن ماجہ، مشکوہ، ترغیب)

حضرت انس سے روایت ہے کہ: “ایک شخص گھر سے باہر جاتے ہوئے اپنی بیوی سے کہہ گیا کہ گھر سے نہ نکلنا۔ اس عورت کے والدین گھر کے نچلے حصہ میں رہتے تھے اور وہ گھر کے اوپر رہا کرتی تھی۔ والد بیمار ہوئے تو اس نے نبی پاک کی خدمت میں بھیج کر عرض کیا اور معلوم کیا (کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر والد کی تیمارداری کر آئے)۔ آپ نے فرمایا اپنے شوہر کی بات مانو چنانچہ اس کے والد کا انتقال ہوگیا پھر اس نے نبی پاک کے پاس آدمی بھیج کر معلوم کیا، آپ نے فرمایا شوہر کی اطاعت کرو۔ پھر نبی پاک نے اس عورت کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ اللہ نے تمہارے شوہر کی اطاعت کی وجہ سے تمہارے والد کی مغفرت کردی۔” (مجمع ج ۴ ص ٣١٦)

حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول پاک نے فرمایا: “اگر میں کسی کو سجدہ کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ شوہر کو سجدہ کرے۔“(ترمذی ج ١ ص ١٣٨)

حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ ﷺ نے فرمایا: “جب شوہر اپنی عورت کو بسترے پر بلائے اور عورت نہ جائے تو فرشتے اس عورت پر صبح ہونے تک لعنت کرتے رہتے ہیں۔” (بخاری ج ٢ ص ٢٨٢)

حضرت طلق سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”مرد جب اپنی ضرورت سے عورت کو بلائے تو عورت فورا آ جائے چاہے وہ تنور پر کیوں نہ بیٹھی ہو۔“(ترمذی، ترغیب)

حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”عورت خدا کا حق ادا کرنے والی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ شوہر کا پورا حق ادا نہ کرئے۔ اگر شوہر اسے بلائے اور وہ اونٹ کی پالان پر ہو تب بھی وہ انکار نہیں کرسکتی۔“(طبرانی، ترغیب)

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: “کسی عورت کے لیے درست نہیں کہ وہ شوہر کی موجودگی میں روزہ (نفلی روزہ) رکھے ہاں مگر اس کی اجازت سے۔ اگر اس نے (بلا اجازت) روزہ رکھا تو بھوکی پیاسی رہی اور قبول نہ کیا جائے گا۔(مجمع ج ۴ ص ٣١٠)

حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”جب عورت اپنے شوہر سے (غصہ کی وجہ سے) الگ بستر پر رات گزارے تو اس پر فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ عورت شوہر کے پاس آجائے۔“(بخاری۔ مسلم)

شوہر سے طلاق مانگنے پر جنت حرام

حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ نبی پاک نے فرمایا:”جو عورت اپنے شوہر سے بلا کسی ضرورت شدید و پریشانی کے طلاق مانگے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔“(ابن ماجہ، ابوداود، ترمذی)

خُلع کا مطالبہ کرنے والی عورت منافق ہے

ضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:”شوہر سے علیحدگی چاہنے والی خُلع کا مطالبہ کرنے والی عورت منافق ہے۔” (مشکوہ۔ نسائی)

شوہر کی بلااجازت نکلنے پر لعنت

ابن عمر سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”جب عورت شوہر کی ناراضگی میں نکلتی ہے تو آسمان کے سارے فرشتے اور جس جگہ سے گزرتی ہے ساری چیزیں انسان جن کے علاوہ سب لعنت کرتے ہیں۔“(طبرانی۔ ترغیب)

کثرت سے بچے جننے والی عورت

حضرت معقل سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:”تمہاری عورتوں میں بہتر وہ ہے جو خوب محبت کرنے والی اور کثرت سے اولاد جننے والی ہو۔” (بیہقی۔ کنز۔ جامع صغیر)

عبداللہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”خوبصورت بانجھ عورت کو چھوڑ دو اور کالی بچے جننے والی عورت کو اختیار کروکہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا۔” (اتحاف المہرہ۔ ابویعلی)

عورت کا گھر سے باہر نکلنا

ابن عمر سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “عورت پردہ ہے اور عورت جب گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانکتا ہے۔ عورت کے یے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ تقرب یہ ہے کہ وہ گھر کے کسی گوشہ میں رہے۔” (ترمذی۔ طبرانی۔ کنز)

ابن عمر سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”عورتوں کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں مگر شدید ضرورت کی بنیاد پر۔” (طبرانی ۔ کنزالعمال)

عورتوں کا تنہا سفر کرنا

ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:”کوئی عورت سفر نہ کرے ہاں مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو۔” (طحاوی۔ بخاری)

بناوٴ سنگھار کرنے والی عورتیں

میمونہ بنت سعدی سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا: “جو عورت اپنے شوہر کے علاوہ زینت و سنگھار کر کے چلی، قیامت کے دن سخت ظلمت و تاریکی میں رہے۔” (ترمذی۔ جامع صغیر)

ابوموسی سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “جب عورت عطر لگا کر لوگوں کے پاس گزرے تاکہ لوگ اس کی خوشبو سے محظوظ ہوں تو وہ زانیہ ہے۔” (کنزالعمال)

عورت کے لیے دو ہی محفوظ مقام ہیں

ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: “عورتوں کے یے دو ہی مقامات قابل ستر ہیں۔ ایک شوہر کا گھر اور دوسرا قبر۔” (کنزالعمال)

شوہر کے بھائی کے متعلق حکم

عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “خبردار عورتوں کے پاس آنے جانے سے بچو۔ ایک انصاری نے پوچھا دیور کے متعلق کیا حکم ہے (وہ بھابھی کے پاس نہ آئے جائے)۔ آپ ﷺم نے فرمایا وہ تو موت ہے۔” (بخاری)

گھر کی کھڑکیاں، روشندان اور سوراخ

امام غزالی سے مروی ہے کہ حضرات صحابہ گھر کی کھڑکیاں اور روشندان جس سے باہر نظر آئے بند فرما دیا کرتے تھے تاکہ عورتیں باہر مردوں کو نہ جھانک سکیں۔

حضرت معاذ بن جبل نے دیکھا کہ ایک عورت گھر کی کھڑکی سے باہر مردوں کو جھانک رہی ہے تو اسے انہوں نے پیٹا۔ (اتحاف السادہ۔ شرح احیاء)

قبروں، مزاروں پر جانے والی عورتیں

ابن عباس سے مروی ہے کہ:” آپ ﷺ نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو قبروں پر جانے والی ہیں۔” (ابو داود۔ ابن ماجہ)

عبدالرحمن بن حسان سے مروی ہے کہ: “آپﷺ نے مزاروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔” (ابن ماجہ)

عورت اور جوتی کا استعمال

ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ: “بی بی عائشہ سے پوچھا گیا عورتیں جوتا پہن سکتی ہیں؟ انہوں نے کہا رسول پاک نے لعنت فرمائی ہے ان پر جو عورتیں مرد کی مشابہت اختیار کرتی ہیں۔” (ابو داود۔ مشکوہ)

عورتوں کا پاجامہ اور ٹخنے

انس بن مالک سے مروی ہے کہ: “آپﷺنے بی بی فاطمہ کو ایڑی کی جانب سے ایک بالشت کی اجازت دی اور فرمایا عورتوں کا کپڑا اتنا لٹکے۔ یعنی ٹخنے کو چھپائے۔” (مجمع الزوائد)

عورت کے لیے امارت و دنیاوی عہدہ

حضرت ابوبکرہ سے مروی ہے کہ: “جب رسول اللہ کو خبر ملی کہ اہل فارس نے کسری کی بیٹی کو تخت شاہی پر بٹھایا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے اپنا حاکم اور والی عورت کو بنایا۔” (بخاری۔ ترمذی۔ مشکوہ)

عورتیں اور جہنم

ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “ننانوے(99)عورتوں میں سے ایک عورت جنت میں جائے گی اور باقی جہنم میں۔” (ابوالشیخ۔ کنزالعمال)

عمران بن حصین سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “جنت میں رہنے والی عورتیں کم ہوں گی (یعنی مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ جہنم میں ہوں گی)۔” (بخاری)

عورت اور فتنہ

اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “میں نے اپنے بعد عورتوں کے فتنہ سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں چھوڑا جو مردوں کو تکلیف دہ ہو۔” (مشکوہ)

ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا: “دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو۔ بنی اسرائیل میں پہلا فتنہ عورتوں کے سبب سے تھا۔” (مشکوہ)

عورت اور نحوست

ابن عمر سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “نحوست تین چیزوں میں ہے۔ عورت، گھر اور گھوڑے میں۔” (مشکوہ۔ ابن ماجہ)

عبداللہ ابن عمر سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا: جب تم میں سے کوئی بیوی، خادم یا جانور حاصل کرے تو اسکی پیشانی پکڑ کر کہے: “اے اللہ میں اس کی بھلائی آپ سے مانگتا ہوں۔ آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس کے شر سے اور اس کی خلقت و طبیعت کے شر سے۔” (ابن ماجہ)

عورت کو مارنا پیٹنا

اشعث بن قیس سے روایت ہے کہ: “حضرت عمر نے دعوت کے روز جب رات ڈھلنے لگی تو آپ نے کھڑے ہو کر اپنی عورت کو مارا۔ میں ان دونوں کے درمیان آگیا۔ جب وہ اپنے بستر پر جانے لگے تو مجھ سے کہا: یاد رکھ! نبی ﷺ فرماتے تھے کہ مرد سے اپنی بیوی کو مارنے کے متعلق سوال نہ کیا جائے گا۔” (ابن ماجہ)

عورت حجاب اور مساوات

یہ درست نہیں کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کے ماننے والے اپنی عورتوں کے لیے حجاب اور دوپٹے کا اہتمام کرتے ہیں۔

یہ روایت میسوپوٹیمیا، سومریوں، بابلیوں، آشوریوں اور قدیم یونان میں بھی پائی جاتی تھی کہ خواتین گھر سے نکلتے وقت سر ڈھانپا کرتی تھیں، سر کو کھلا چھوڑنا ایک کبیرہ گناہ سمجھا جاتا تھا جو زنا کے برابر تھا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والی عورت کو سخت سزا دی جاتی تھی۔

یہودی شریعت کی تکمیل کے لیے بھی تلمود اور مدراش میں خواتین کے سر ڈھانپنے کے احکامات موجود ہیں۔

حجاب ایک قدیم یہودی روایت ہے جو بعد میں ایک مذہبی فریضہ بن گئی، دونوں صورتوں میں یہ بات مُسلم ہے کہ یہ روایت قدیم یہودی معاشروں میں بدرجہ اتم موجود تھی۔

تلمود یہودی خواتین پر حجاب فرض کرتا ہے جس کے بغیر انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں، اور شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ خلاف ورزی کرنے پر وہ اپنی بیوی کو بغیر کسی قسم کے اخراجات ادا کیے طلاق دے دے، یہودی علماء کے نزدیک عورت کا سر ننگا کرنا ایسا ہی ہے گویا اس نے اپنے جنسی اعضاء نمایاں کردیے ہوں۔

ڈاکٹر مناحیم بریر جو جامعہ یشیوا میں توراتی ادب کے استاد ہیں اپنی کتاب ربانی ادب میں یہودی عورت کا مقام میں کہتے ہیں کہ خواتین کا سر ڈھانپنا یہودیوں کے ہاں ایک پختہ روایت تھی جو بعض اوقات پورے چہرے پر محیط ہوتا تھا اور دیکھنے کے لیے محض ایک آنکھ کے لیے ایک سوراخ چھوڑا جاتا تھا، جلالیب کی آیت کی حضرت ابن عباس بھی کچھ ایسی ہی تفسیر کرتے ہیں۔
ذیل میں کچھ قدیم یہودی علماء کے اقوال نقل ہیں:

بناتِ اسرائیل کی یہ شان نہیں کہ وہ ننگے سر باہر نکلیں

وہ مرد ملعون ہے جو اپنی عورت کا سر ننگا چھوڑے

جو عورت اپنے بالوں کو ذاتی زینت بنائے وہ فاقوں کا سبب بنتی ہے

یہودی شریعت میں نمازیں اور دعائیں کسی ننگے سر کی عورت کی موجودگی میں قبول نہیں ہوتیں کیونکہ اسے عریانیت سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سر کھلا چھوڑنے کی پاداش میں یہودی خواتین کو چار سو زوزیم (100 شیکل) جرمانہ کیا جاتا تھا، اس کے برعکس فاحشاؤں اور طوائفوں کو یہودی معاشرے میں سر ڈھانپنے کی اجازت نہیں تھی تاکہ آزاد اور غلام عورتوں میں فرق کیا جاسکے۔

یہودیوں کے ہاں عورت کے حجاب کی حیثیت ایک دائمی سوگ کی سی ہے جو عورت کو ہماری پہلی ماں حواء کے سیب کھانے کی عظیم غلطی کی شرمندگی کا احساس دلاتی ہے، یہی وجہ ہے یہودی خواتین پابندی سے سر ڈھانپتی ہیں۔

کچھ ممالک میں جیسے یوکرین اور ہنگری میں آرتھوڈکس یہودی خواتین اپنی شادی کے وقت گنجی ہوجاتی تھیں اور سر کو رومال سے باندھ دیتی تھیں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ شادی کی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے دوران سر کے بال غلطی سے بھی ظاہر نہ ہوسکیں۔

جب کچھ شوہروں نے اس طرزِ عمل پر اعتراض کیا کہ اس طرح عورت کی خوبصورتی شدید متاثر ہوتی ہے تو اٹھارویں صدی میں یہودی خواتین نے اپنے گنجے سروں پر وگ پہننا شروع کردی، تاہم غیر آرتھوڈکس خواتین مذہبی رسومات کے وقت صرف سر ڈھانپنے پر ہی اکتفاء کرتی ہیں۔

یکم جنوری 2008 کو امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر ڈیلس میں یاسر عبد السید نامی ایک ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی دونوں بیٹیوں 17 سالہ سارہ اور 18 سالہ امینہ کو اس لیے قتل کردیا کیونکہ ان بچیوں نے حجاب پہننے سے انکار کردیا تھا، اس نے اپنی دونوں بیٹیوں پر اس وقت گولی چلائی جب وہ کسی ہوٹل کے باہر ٹیکسی پر سوار تھیں۔

اس کے کچھ عرصہ بعد ٹورانٹو کینیڈا میں محمد پرویز نامی ایک 57 سالہ پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی زیرِ تعلیم بیٹی کو اپنی دیگر کلاس فیلوز لڑکیوں کی طرح حجاب نہ پہننے کے سبب قتل کردیا۔

ایران کے ایک عالم غلام رضا حسانی نے اپنے جمعے کے ایک خطبے میں یہ فتوی صادر فرمایا کہ حجاب نہ پہننے والی خواتین کو قتل کردینا چاہیئے، انہوں نے انقلاب کے بعد ایران میں بے پردہ خواتین کے زندہ ہونے پر تعجب کا اظہار کیا۔

طالبان کے افغانستان میں بے پردہ خواتین کو گولی مار دی جاتی تھی۔

جزیرہ نُما عرب میں ظہورِ اسلام سے قبل حجاب یا نقاب کا رواج نہیں تھا، مسلمانوں میں حجاب مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے اور وہاں کے یہودیوں کے ساتھ گھلنے ملنے کے بعد متعارف ہوا۔

جب جنگوں سے مسلمان طاقتور ہوگئے اور غلاموں اور کنیزوں کی ریل پیل ہوگئی تو آزاد اور غلام مرد وخواتین میں تفریق کی ضرورت آن پڑی۔

لہذا آزاد مرد مونچھیں منڈواتے اور داڑھی بڑھاتے اور خواتین حجاب یا نقاب پہنتیں، تفسیر الطبری کے مطابق حضرت عمر جب کسی غلام عورت کو پردے میں دیکھتے تو اسے دُرے مارتے تاکہ آزاد خواتین کے لباس کی حفاظت کی جاسکے جیسا کہ یہودی کرتے تھے۔

ذیل میں اسلام میں حجاب اور اس کی اہمیت پر کچھ ائمہ کرام کے اقوال نقل ہیں:

1۔مفسرِ قرآن وصحابی رسول حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: اللہ نے مؤمنین کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ اگر وہ کسی ضرورت کے تحت گھر سے نکلیں تو اپنے چہروں کو جلابیب سے سر کے اوپر سے ڈھانپیں اور صرف ایک آنکھ ظاہر کریں۔

2۔امام یحیی بن سلام التیمی البصری القیروانی فرماتے ہیں: جلباب ایک لباس ہے جس سے عورت پردہ کرتی ہے۔

3۔امام ابو المظفر السمعانی فرماتے ہیں: عورت کو چاہیئے کہ وہ اپنے جلباب سے اپنا سر، چہرہ اور سارا بدن ڈھانپے سوائے ایک آنکھ کے۔

4۔امام بغوی فرماتے ہیں: مؤمنین کی عورتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کو وہ جلباب سے اپنے سر اور چہرے ڈھانپیں سوائے ایک آنکھ کے تاکہ پتہ چلے کہ وہ آزاد ہیں۔

5۔امام العز بن عبد السلام فرماتے ہیں: جلباب وہ لباس یا نقاب یا ہر وہ لباس ہے جو عورت اپنے کپڑوں کے اوپر پہنتی ہے اور اپنا جسم اور چہرہ ڈھانپتی ہے تاکہ وہ نظر نہ آئے سوائے ایک آنکھ کے۔

اسی طرح باقی کی کوئی 41 تفاسیر پر قیاس کرتے چلے جائیے جو ساری کی ساری ہماری بہو بیٹیوں سے نقاب کا مطالبہ کرتی ہیں، یہ ساری تفسیریں یا تاویلیں سورہ احزاب کی آیت نمبر 59 کی ہیں:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا
اے پیغمبر ﷺ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہدو کہ باہر نکلا کریں تو اپنے چہروں پر چادر لٹکا کر گھونگھٹ نکال لیا کریں۔ یہ چیز انکے لئے موجب شناخت و امتیاز ہو گی تو کوئی انکو ایذا نہ دے گا۔ اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔

ابنِ کثیر اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: مدینہ کے فاسق لوگ رات کو نکلتے، اگر پردے والی کوئی عورت دیکھتے تو کہتے: یہ آزاد ہے، اور اس سے باز رہتے، اور اگر بغیر پردے کے کسی عورت کو دیکھ لیتے تو کہتے: یہ لونڈی ہے، اور اس پر حملہ کردیتے۔

سورہ احزاب کی آیت 33 بھی زیادہ تر مفسرین کے بقول اس لیے نازل ہوئی تھی کہ کفار مؤمنین کی عورتوں اور رسول اللہ کی بیویوں کو چھیڑنے لگے تھے۔

لہذا گھر میں رہنے اور حجاب پر زور دیا گیا تاکہ مؤمنین اور خاص کر رسول اللہ کی بیویوں کا پتہ نہ چلے اور وہ کسی طرح کی چھیڑ خانی سے بچ سکیں، یہ حجاب صرف آزاد عورتوں پر فرض کیا گیا تھا لونڈیوں اور کنیزوں پر نہیں، حضرت عمر نے جب ایک لونڈی کو با حجاب دیکھا تو اس پر تشدد کرتے ہوئے کہا کہ: کیا تم آزاد عورتوں سے مشابہت اختیار کرتی ہو؟؟

1659کو ہندوستان کے عسکری قائد افضال خان نے پنجاب کے راجہ شیوا پر حملے سے قبل اپنی 63 بیویوں کو اس ڈر سے قتل کردیا کہ اگر کہیں وہ جنگ میں مارا گیا تو کوئی اور اس کی بیویوں سے شادی نہ کر لے، قرآن کے مطابق رسول اللہ کی بیویوں پر بھی ان کی وفات کے بعد شادی حرام تھی۔

آخر مرد حجاب ونقاب سے عورت کی شخصیت کو مٹانے پر کیوں تلا ہوا ہے؟ کیا اس کی وجہ مذہبی تحریریں ہیں یا پھر یہ کوئی نفسیاتی معاملہ ہے کہ آخر مرد ہی ساری صعوبتیں برداشت کرتا اور گھر کا خرچ اٹھاتا ہے اس لیے سارے حقوق صرف اسی کے لیے ہیں اور عورت کو محض اس کی اندھی اطاعت کرنی چاہیئے، مرد اپنی عورتوں کو نقاب کے پیچھے چھپانا چاہتا ہے تاکہ اسے گھر میں قید کر سکے ان کی تعلیم اور معاشی خود مختاری پر قد غن لگا سکے۔

مرد کی نظر میں عورت جانور اور انسان کے بیچ کی کوئی انسان نُما مخلوق ہے جسے وہ جب چاہے مار کر اور طلاق دے کر گھر سے نکال سکتا ہے اور بغیر کسی پوچھ گچھ کے کسی اور کے ساتھ گھر بسا سکتا ہے، گویا عورت اس کی جنسی خواہشات کی تکمیل اور بچے پیدا کرنے کی مشین کے سوا کچھ نہیں، جنت میں بھی اس کی یہی حالت برقرار رہتی ہے، مرد حوروں سے لطف اندوز ہوتا ہے اور وہ محض اسی سابقہ شوہر کے زیرِ نگیں رہتی ہے۔

اگر عورت تعلیم حاصل کر کے معاشی خود مختاری حاصل کر لے تو ایسی صورت میں مرد کی مردانگی اور اس کی وراثتی معاشرتی حیثیت خطرے میں پڑ جاتی ہے، ایسی صورت میں وہ عورت کے ساتھ پہلے کی طرح کنیزوں والا رویہ نہیں اپنا سکتا جو کہ اس کی عادت رہی ہے، اس لیے عورت کی شخصیت کو حجاب ونقاب میں مٹانا ضروری ہوجاتا ہے، یہ مرد کے لیے ایک شافی نفسیاتی علاج ہے، یہی وجہ ہے جو طالبان کو مبالغہ آرائی کی حد تک عورت دشمن بنا دیتی ہے اور وہ نقاب وحجاب کے شرعی ہتھیار سے لیس ہوکر معاشرے سے اسے غائب کرنے کی مہم پر نکل کھڑے ہوتے ہیں، جب افغانستان میں انہیں اقتدار نصیب ہوا تو سب سے پہلا کام جو انہوں نے کیا وہ لڑکیوں کے سکول اور کالج بند کروانا اور نقاب کو لازمی قرار دینا تھا، خلاف ورزی کرنے والی کی سزا موت تھی، بیواؤں کو کام کرنے سے روک دیا گیا اور انہیں گھروں میں رہنے پر مجبور کردیا گیا جس کی وجہ سے ہزاروں خواتین اپنے بچوں سمیت بھوکوں مر گئیں۔

دسمبر 2006 میں مشرقی افغانستان میں طالبان نے ایک پورے خاندان کو محض اس لیے قتل کردیا کیونکہ انہوں نے اپنے گھر کے اندر بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوشش کی تھی، قبل ازیں طالبان نے 20 مرد وخواتین پر مشتمل اساتذہ کو گھروں میں بچیوں کو پڑھانے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، کشمیر میں اسلام پسندوں نے سکول جاتی بچیوں پر تیزاب پھینک کر ان کے چہرے مسخ کردیے، 1998 میں الجزائر میں اسلام پسندوں نے سکول جانے کی پاداش میں 300 بچیوں کو قتل کردیا۔

آزادی فکر اور ارادے کی ہوتی ہے جب تک کہ وہ قانون کے دائرے میں رہے، عورت کی آزادی کی مخالفت کرنے والے بعینہ وہی منطق استعمال کرتے ہیں جو وہ آزادیء صحافت، آزادیء اظہار رائے اور دیگر تمام آزادیوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں، مسلم ممالک کی طرف دیکھیئے، آپ کو عورت مرد کی غلام نظر آئے گی اور مرد حاکم، مرد اپنے گھر میں ظالم ہے اور گھر کے باہر مظلوم ہے، مغربی ممالک کی طرف دیکھیئے، آپ کو حکومتیں آزادی اور انسانی حقوق کے قاعدے لاگو کرتی نظر آئیں گی، عورت کی قدر ومنزلت احترام کی بلندیوں کو جا پہنچی ہے۔

مغربی اقوام کی بھی اخلاقیات اور اقدار ہیں، وہ صفائی پسند ہیں اور جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں، وعدہ کرتے ہیں تو وفا کرتے ہیں، ان پر یہ الزام کہ وہ مسلم معاشروں سے فکری طور پر پسماندہ ہیں غیر منصفانہ اور بے بنیاد الزام ہے، اگر آپ مسلم معاشروں کی اخلاقیات پر غور کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان کی اخلاقیات صرف ایک چیز کے گرد گھومتی ہے اور وہ ہے عورت، مسلم اقوام کو عورت کے برقع اور کنوارے پن کا گویا خبط ہے۔

مغرب کی اخلاقیات کے اسباب علمی ہیں مذہبی نہیں، اخلاقیات پر ارسطو کی پوری ایک کتاب ہے جس میں ثواب اور آخرت میں سزا کا ایک بھی لفظ نہیں ہے، ہر فلسفی نے اخلاقیات کے موضوع کو فلسفیانہ پہلو سے دیکھا ہے، درست فہم اور معرفت کے بغیر اخلاق ایک عارضی حالت بن جاتے ہیں اور جلد ہی زوال پذیر ہوجاتے ہیں۔

مغرب میں عورت کی آزادی اور غلامی کا خاتمہ مذہبی وجوہات کی بنا پر نہیں ہوا، مساوات کے اسباب بھی مذہبی نہیں، رنگ ونسل کی تفریق کا خاتمہ بھی مذہبی بنیادوں پر نہیں کیا گیا، یہ سب سیاسی اور معاشرتی علوم میں ترقی کے سبب ہوا، مغرب میں مساوات تب لاگو کی گئی جب اقوامِ مغرب کو یہ یقین ہو چلا کہ یہ مساوات معاشرے کی ترقی اور سلامتی کے لیے بے حد ضروری ہے۔

 

‘A Sunni’s Muharram Lamentation’ By Obaid Zia

(A worth reading article by a teenager in this highly charged and politically exploited environment where extremists bomb mosques just for having different school of thought. I remember when we were growing up, it was not unusual for Sunni to join their Shia neighbors in Muharram rituals. During hot summer days many Sunni will set up juice and cool water stations along the road for the Muharram procession participants. I hope some sanity will return to this extremist madness F. Sheikh)      

I am a Sunni. My family is Sunni. We love Abu Bakr, Uthman, Umar, Ali. We believe in their Rightly Guided Caliphates. The Commanders of the Faithful. We believe in Aisha as a wife of the Prophet ﷺ and a role model. A Mother of the Faithful. This is our belief. We are not Shia.

 

 

As part of being Muslim, we love the Prophet ﷺ and love all that which he loves. For what is beloved to the Prophet ﷺ is beloved to God. This includes love of the people he loved. The Prophet ﷺ loved his wives, his friends, his companions, and his family. We wish peace upon the Prophet ﷺ and his family in every Salaat, just like every other Muslim in the world does without regard to madhab.

Of the Prophet’s family ﷺ, there exist two names shadowed in an eternal passion, kept alive by billions of lovers for over a millennium. The beloved sons of Fatima az-Zahra, daughter of the Prophet Muhammad ﷺ, and her husband Ali ibn Abi Talib: Hasan and Hussain. The Prophet Muhammad ﷺ confided with humanity that indeed his favorite two children in all of creation would be the leaders of the youth of Paradise. The two sons of the House of the Prophet ﷺ would grow up to be great leaders, as prophesized by the Holy Messenger ﷺ, and find themselves murdered by their grandfather’s followers for their sacred ancestry ﷺ.

imam hussain - karbala - dome - muharram

Why is it that, growing up, the names “Hasan and Hussain” brought the images of children to my mind? Why is it that I, and many other youth in America, are not taught much about Hasan and Hussain when they grow up? All that most know about them is that the Prophet ﷺ loved and kissed them and that they would bring him his blessed slippers. That’s it. They’re our role models to be the perfect children. We, as Sunnis,have forgotten that they’re really models through our death and afterlife.

We never learn that Hasan and Hussain grow up to be Imam Hasan and Imam Hussain. We don’t learn of the prophecy of Imam Hasan being a “great sayyid” through whose hands “Allah shall bring peace between two parties.¹” We don’t learn about him succeeding his father as the entitled fifthRightly Guided Caliph, a rank we are taught is posthumously bestowed upon Umar ibn Abd al-Aziz. We aren’t taught that he gave up his right to the caliphate to fulfill that very Muhammadan Prophecy ﷺ. We never learn that Hasan and Hussain grow up.

We never learn about the murder of the Prophet’s ﷺ grandsons at the hands of his Ummah. We never learn about the betrayal from a son of Bani Ummayah. We never learn about the theft of khilafat from the righteous. We never learn about Muawiyah’s warning his son to not “meet God with his [Imam Hussain’s] blood.” We never learn about the gross disobedience to his father, his soul’s nature, his sense of inhumanity, to the Prophet he claimed to love ﷺ.

 

 

We feel from our parents and elders that Muharram is sacred for reasons other than literal translation, but don’t know why. We get lost in confusing debates about not marrying during Muharram. Elders argue over engagements being jaa’iz before and/or after 10th Muharram. We get even more confused when an aunty says marriages shouldn’t be held until Rabi’ al-Awwal. Why does it matter?we ask. We aren’t Shia, we iterate. Few parents are willing to explain. Maybe the pain of which there is to speak is too deep. Maybe they’ve become confused, in the melting pot that is Muslim America, on the validity of their beliefs. However, I’m not writing this to criticize the pseudo-salafi influence in America throwing off 1400 years of orthodox Sunni scholarship. I’m writing this because I was (and still am, obviously) a confused Sunni youth in America wondering why the hadith and scholarly quotes about the Ahl al-Bayt are an open secret, why the poems of Imam Shafi’ are hidden, why our elders and teachers are content in letting an entire generation grow up without knowing that Islam could have died barely 60 years in. How can an imam talk about the erroneous “fitnah of women” when we don’t even know about the fitnah that almost killed the religion of our beloved Prophet ﷺ?

We, as a generation and a new culture are confused because we don’t know about Karbala.
I educated myself. I read about the Ahl al-Bayt. I read about Orthodox Sunnism. I picked up where the Sunday school textbooks left off. I read about what our Shia brothers believe about the Battle of Karbala. I read about what the Orthodox Sunni scholars say about it. I read the accounts. I feel the shared pain between the lines—an ancient remorse, the feeling of shame. When you realize the scholars who speak about Hussain are the scholars that are here to be the heirs of the Prophets ﷺ, you see how much we share across these sects. You see how sects become madhabs. We aren’t united by the shahadah. We aren’t united by love of a single God. We aren’t united by love for the Prophet ﷺ. We are united by all that and the love of the Ahl al-Bayt. In Muharram, we share the deep grief for the events at Karbala. When you see what both traditions of scholars, Shia and Orthodox Sunni, say about the emotions of Muharram, you see why we are brothers.

We are brothers because when a tyrant stole the caliphate of the Muslim Ummah and abused it, Imam Hussain stood up for you and me and the nation his grandfather built with his blood, sweat, and many tears. He marched himself to his death for the sake of survival. On that day in Karbala, he was undoubtedly on the side of Islam, the side of his father, the side of his grandfather ﷺ, the side of righteousness and truth.

Imam Hussain came to the battlefield not as a Shia to fight Sunnis, or a Sunni to fight Shias. He was there as the inheritor and rightful successor of his grandfather ﷺ to continue the Prophetic crusade against injustice and darkness. It wasn’t “Sunni succession vs. Shia succession.” The knowledgeable of the Ummah had already designated Imam Hasan and Imam Hussain as caliphs. No. That day in Karbala, the battlefield was Haq vs. Kufr.

Bloodshed was to ensue. Brother slaughtered brother. Imam Hussain came with a message of diplomacy, of amnesty, of civility. He was faced with an army who claimed to be from the Ummah of the Prophet Muhammad ﷺ. They were a people who claimed to pray and fast. An army who venerated the grandfather of the man they were ordered to murder ﷺ, an army who claimed to love God and His messenger ﷺ as the ultimate reality.

An army who claimed to be on the path of Islam, an army who claimed to love the Prophet Muhammad ﷺ, was about to slaughter his holy family before leaving their dead bodies to rot for three days. They took the words of the kalima, chewed them up, spat them out, and trampled them with their horses. When Sayydina Abu Bakr “would rather do good to the family of the Prophet ﷺ rather than to [his]own family,²” the army at Karbala didn’t even spare thirsty infant Ali al-Asghar crying in the arms of Imam Hussain. They couldn’t spare a drop of water for the progeny of the Prophet ﷺ they claimed to love. Their hearts had already traded God for the pleasures of this world. Words cannot describe the revolting lapse of conscience, of taqwa, of basic humanity, that the murderers of the Prophet’s household had on that day ﷺ.

The story ends with Sayyid Shabab al-Jannah, the Leader of the Youth in Paradise, the Prince of the Prophet’s household ﷺ, becoming the final casualty. Having watched all 72 of his followers and most of his family slaughtered, beheaded, and disfigured, he charged into the army of thousands, fighting valiantly despite his severe wounds. After the final blow to the Prince of the Martyrs, his head was cut off, and placed on a silver platter to be presented to the general of the army, who “started playing with a stick at the nose and mouth of Al-Hussain’s head and saying something about his handsome features.³” The army, who claimed to be Muslims, would then place the heads of their victims and Imam Hussain on the tips of spears and march 600 miles to Yazid—championing their victory.

 

 

If only this was the whole story, yet this much is enough to make anyone’s skin crawl. Such injustice was done. If Hussain had remained quiet and relented to Yazid, he and his family members would have lived. However, Yazid’s men would still have been evil. They would gutted Islam of anything good or Prophetic, and left it a shell of empty words, of sin, of corruption, of evil. If it weren’t for Imam Hussain’s sacrifice, Islam would have died. The legacy of Hussain’s selfless sacrifice lived on in the community of the Muslims under unjust rulers. The light of his fight for truth lived on in the minds of the believers, ready to reclaim the religion of the Holy Prophet ﷺ whenever opportunity presented. Imam Hussain inspired the spirit of reality in the darkness. Yazid had Imam Hussain killed, Yazid won, but Yazid still died three years later, and today he’s nothing but dust in the desert, while Hussain lives on in the hearts of billions. While Yazid won the battle, Hussain continues to win the war hundreds of years later. His death in righteousness lit the fire of truth until the truth of the battle could prevail, and continues to inspire truth in the face of injustice today. Click link below for full article.

 

http://themuslimvibe.com/featured/a-sunnis-muharram-lamentation/

Posted by f. sheikh

WHAT DOES ISLAM SAY ABOUT BEING GAY

Shared by Tahir Mahmood

An article from NYT

ISTANBUL — On June 29, Turkey’s 12th Gay Pride Parade was held on Istanbul’s crowded Istiklal Avenue. Thousands marched joyfully carrying rainbow flags until the police began dispersing them with water cannons. The authorities, as has become their custom since the Gezi Park protests of June 2013, once again decided not to allow a demonstration by secular Turks who don’t fit into their vision of the ideal citizen.

More worrying news came a week later when posters were put up in Ankara with a chilling instruction: “If you see those carrying out the People of Lot’s dirty work, kill the doer and the done!” The “People of Lot” was a religious reference to gays, and the instruction to kill them on sight was attributed to the Prophet Muhammad. The group that put the posters up, the so-called Islamic Defense Youth, defended its message by asserting: “What? Are you offended by the words of our prophet?!”

All of this suggests that both Turkey and the Muslim world need to engage in some soul-searching when it comes to tolerance for their gay compatriots.

Of course this intolerance is not exclusive to either Turks or Muslims. According to the International Lesbian, Gay, Bisexual, Trans and Intersex Association, Turkey scores slightly better on measures of gay rights when compared with some nearby Christian-majority nations such as Russia, Armenia and Ukraine. Indeed, Turkey’s secular laws don’t penalize sexual orientation, and some out-of-the-closet L.G.B.T. icons have long been popular as artists, singers or fashion designers. Among them are two of the most popular Turkish entertainers of the past half-century: The late Zeki Muren was flamboyantly gay and the singer Bulent Ersoy is famously transsexual. Their eccentricity has apparently added to their popularity.

But beyond the entertainment industry, the traditional mainstream Islamic view on homosexuality produces intolerance in Turkey toward gays and creates starker problems in Muslim nations that apply Shariah. In Saudi Arabia, Iran, Sudan or Afghanistan, homosexuality is a serious offense that can bring imprisonment, corporal punishment or even the death penalty. Meanwhile, Islamic State militants implement the most extreme interpretation of Shariah by throwing gays from rooftops.

The hostility of many Muslims toward homosexuality has little basis in the Quran.

http://www.nytimes.com/2015/07/29/opinion/mustafa-akyol-what-does-islam-say-about-being-gay.html?mwrsm=Email