Evolution of Religions

Shared by Dr. Syed Ehtisham

Human beings are understood to have evolved to the current
brain size about half a million years ago, ​enabling them to have​ bipedal
locomotion, coherent speech, power of analysis, greater social
organization, and imagination.
The earliest available record and evidence​ are of female
dominated hunter-gatherer society, evolving over​ thousands of years into
tribal, feudal-monarchical-mercantile and capitalist stages.
Over time, the concept of divine developed and​ passed through
the stage​s​ of polytheism, which ​initially​ had more or less equal
representation of male and female forms. With the advent of agricultural
mode of production, matriarchal society gave way to male domination.  ​
Initially gods were believed to be just more powerful beings
than humans, but over time they grew more and more distant and different
from the ordinary mortal. Bhagwan among Hindus was initially head of the
tribe who gave away ‘Bhag (portion). Monotheistic creeds followed, which
conforming to the norms of the time, had only male Gods .Initially the
monotheistic God kept close personal relations with the prophets. God of
Moses (He had actually to compete with and overcome rivals) used to invite
him for regular parleys. Jesus did not talk to him directly and his
followers were reduced to award​​ him a biological relationship with the
Almighty. The prophet of Islam had only one audience when he rose to the
seventh heaven on a flying horse named “Burraq”; Archangel Gabriel was the
appointed emissary for all exchanges.
Accounts of the earliest beliefs and their origin are ​at
best​ speculative. Humans needed explanation of and protection from natural
elements. It was probably a coincidence that a prediction of member of a
tribe came true; drought ended or the crop was good or a fire died down.
The person, pushed to explain how she/he knew, might have claimed a special
relationship with gods. The profession of clergy probably started that way.
People saw other people die. It made them wonder about their own
death. At the deepest subconscious they thought of their personal unknown
future. The unknown ​was pregnant with curiosity and fear.​
Individuals with perceived​ access to the ‘divine’ explained the future on
the basis of their inner experience. They gave their views to humankind
about virtue and vice, about heaven and hell, about salvation and
damnation; ​a concept named Faith for a collectively peaceful co-existence.
​Thus religions were created.
Priests were close to the spiritual personages. They interpret and
propagate the teachings of the ‘divine’.  They exercise the greatest
influence upon devout believers.
With advancement of knowledge and ability to
explain many​ natural phenomena​​ on scientific and rational basis, it
became necessary to invent the ultimate unknown which was the first cause,
the un-created creator; we have the God of Abraham, Moses, Jesus and
Muhammad, peace be upon all of them.
Conformists, challenged by detractors, claim that religion
inspired people and offers solace, when nothing else could. Well opium is a
great analgesic; further it can be chemically changed into morphine which
is an even better pain reliever. But it can be converted into Heroin as
well, which is highly addictive. Obviously opium production has to  be
regulated but you can not trust an addict as a regulator. The question
arises; why trust the clergy, mullahs, pundits and rabbis to regulate
religious practices

Imagination and picture of God (God & Concept of God)

 

Shared by Iqbal Sheikh

 

حدِ نظر پھیلا  ہوا شاندار اور خوبصورت ،بے عیب نیلگوں  آسمان ۔یوں لگتا ہے کہ اتنی خوبصورت اور بے عیب کوئی دوسری  شے ہو ہی نہیں سکتی ۔ مگر ایک سوال ہے ،شاید آپ نے بھی کبھی سوچا ہو، کہ یہ آسمان نیلا کیوں دکھائی دیتا ہے؟ کسی کا  تو جواب  یہ ہوگا کہ خدا نے اسے نیلا بنایا ہے۔ کوئی جو سائنس کی  تھوڑی بہت سوج بوجھ رکھتا ہوگا ،کہے گا فضاء میں معلق پانی کے بخارات نیلے رنگ کا آسمان ہیں۔

کیا یہی حقیقت ہے؟ کیا یہی پانی کے بخارات نیلے رنگ کا آسمان ہیں؟ بالکل کہہ سکتے ہیں، مگر یہ ہمیں نیلے رنگ کے کیوں دکھائی دیتے ہیں؟ یہ بھی ایک سوال ہے۔ کیا یہ ہماری آنکھوں کا کمال ہے کہ روشنی ان سے گزر کر ہماری آنکھوں کے ریٹینا پرپڑ رہی ہے۔ مگر پھر بھی یہ نیلا ہے کیا؟ ہم  آپ سے کہیں گے کہ نیلا کچھ نہیں ہے۔ نیلا رنگ صرف اور صرف آپ کے دماغ میں ہے۔ آپ کہیں گے: کیا کہہ رہے ہو یار۔

مگر یہی حقیقت ہے۔ روشنی آپ کی آنکھوں میں پڑتی ہے اور آنکھیں آپ کے دماغ کو معلومات دیتی ہیں ۔اور اس معلومات کا مطلب دماغ کے لیے نیلا رنگ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ درحقیقت نیلے رنگ کے آسمان کو سمجھنے کے لئے دماغ نے ایک نظام بنایا ہوا ہے۔ جب آنکھوں پر روشنی پڑی تو اس روشنی کے مطابق دماغ کو معلومات دی گئیں۔ اور اس سے دماغ نے ایک تصوراتی تصویر بنائی جو حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔ بعینہی تمام  احساسات ہمارے حواسِ خمسہ کے ذریعے دماغ کو خارجی حقائق کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

یعنی  جو ہم دیکھتے ہیں، جو سونگھتے ہیں وہ ہمارے دماغ کے اندر چل رہا ہوتا ہے۔ اور ہمارے حواس کے ذریعے سے دماغ میں آنے والی تمام معلومات سے ایک عکس بنتا ہے جو صرف دماغ کے اندر ہوتا ہے۔ تمام چیزیں جو ہمارے ارد گرد وجود رکھتی ہیں ان کا وجود ایک حقیقت ہے۔ جس کو ہمارا دماغ سمجھتا ہے اور اس کی اپنے انداز میں ایک تصویر بنا لیتا ہے اس طرح سے ہمارا دماغ ہمارے ارد گرد کے ماحول کی حقیقت سے رابطے میں رہتا ہے۔

دوسری طرف دماغ میں چلنے والی ہر چیز، ہر سوچ، صرف حواسِ خمسہ پر ہی انحصار نہیں رکھتی۔ دماغ کی ایک اپنی دنیا ہے۔ اس دنیا میں سوچ کی بے شمار تصویریں ہیں۔ یہ تصویریں حقیقت پر بھی  مبنی ہوتی ہیں اور تخیل پر بھی ۔تخیلات اور حقیقت مل کر دماغ کی سمجھ بوجھ میں اپنا اپناکردار ادا کرتے ہیں۔

ہم میں سے ہر ایک نے زندگی میں کبھی نہ کبھی گھوڑا ضرور دیکھا ہوگا۔ اب اگر میں آپ سے پوچھوں تو آپ با آسانی مجھے بتا دیں گے کہ گھوڑا ایک جانور ہے ۔اس کی شکل ایسی ہوتی ہے۔ اس کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر اگر میں آپ سے پوچھوں کہ پری کیا چیز ہے؟ تو ہر کسی کا جواب مختلف ہوگا۔ کوئی کہے گا اس کے دو پر ہوتے ہیں۔ کوئی کہے گا چار ہوتے ہیں۔ کوئی کہے گا اس کے بال اتنے لمبے ہوتے ہیں۔ کوئی کہے گا اس کی پوشاک ایسی ہوتی ہےاورکوئی کہے گا ویسی ہوتی ہے۔ اصل میں گھوڑے اور پری کی مثال دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ گھوڑا ایک حقیقت ہے اور پری دماغ کی ایک تصوراتی تصویر۔ اگر آپ کسی سے گھوڑے کے بارے میں پوچھیں گے تو ہر کوئی گھوڑے کی تقریباً ایک جیسی خصوصیات ہی بتائے گا۔ مگر پری یا پھر جل پری، جن بھوت، بلائیں اور ہر قسم کے خیالی اور تصوراتی کرداروں کی ہیئت اور اشکال میں آپ کو ایک ایسا تضاد ملے گا ۔کہ اگر آپ صرف ان کی خصوصیات کسی کو بتانے لگیں اور کہیں کہ بوجھو میں کس چیز کے بارے میں بتا رہا ہوں تو کوئی کسی خاطر خواہ نتیجے پر نہیں پہنچ پائے گا۔

یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ تخیلاتی چیزیں جو صرف دماغ میں ہوتی ہیں ان میں بے شمار تضاد ہوگا ۔کیونکہ ان کا تعلق خالصتاً دماغ کی دنیا سے ہے ۔جبکہ حقیقی وجود رکھنے والی چیزوں کے بارے میں تضاد نہیں ہوگا ۔کیوں کہ ان کا تخیل یا تصویر دماغ نے حواسِ خمسہ کے ذریعے لے کر اپنے اند محفوظ کی ہوئی ہوتی ہے۔ اسی باعث ان تصورات میں تضاد نہیں ہوتا۔ مگر جو تصوراتی چیز صرف اور صرف دماغ کی پیداوار ہے اس کے بیان میں تضاد ضرور ہوگا۔اگرپری اور جل پری کی ہی بات لے لیں، توبتائیے کہ پری کا تصور پہلے آیا ہوگا کہ جل پری کا؟ شاید پری کا۔ یعنی ایک خوبصورت عورت جس کے پر ہوتے ہیں اور وہ اڑ سکتی ہے۔ پھر کسی دن کسی نے سوچا کہ اگر خوبصورت پری ہوا میں پروں کے ذریعے اڑ سکتی ہے تو پانی میں تیرنے کے لئے اس کو مچھلی جیسی ایک دم کی ضرورت ہوگی۔ تو لیجئے جی جل پری بن گئی !کوئی کہے گا کہ جل پریاں انسانوں کی دوست ہیں ،تو دوسرا کہے گا نہیں وہ تو آدم خور ہوتی ہیں۔ یعنی تصوراتی کرداروں کے بارے میں تصورات میں تضاد انتہائی زیادہ ہوگا۔ ہاں گھوڑے کے قد یا جسامت میں فرق ہو سکتا ہے۔ مگر کوئی بھی یہ نہیں مانے گا کہ گھوڑا اڑ سکتا ہے۔ مگر جل پری کے بارے میں یہ بات کوئی  بھی آسانی سے مان لے گا۔

دنیا میں ایسی بھی چیزیں ہیں جو دماغ کے تصور کی پیداوار ہیں ۔مگر انسانی صنعت کے باعث حقیقت کا روپ دھار گئیں۔ ان چیزوں کی ہیئت اور بناوٹ کے بارے میں بھی کوئی خاص تضادات نہیں ہوتے۔ اور اگر ہوتے بھی ہیں تو تھوڑا بہت حواسِ خمسہ کے استعمال کے بعد دور ہو جاتے ہیں۔ مگر وہ چیزیں جو خالصتاً تصور میں رہتی ہیں ان کے بارے میں تضادات کو دور کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ کیونکہ دماغ ان کی حقیقت کو کبھی بھی دریافت نہیں کر سکتا۔ اس لئے ان تصورات میں اضافہ یا بڑھوتری صرف تصوراتی بنیادوں پر ہو کر ان معاملات کو مزید پیچیدہ کر دیتی ہے۔

آپ کو دنیا میں جل پریوں کے مصوروں کے بنائے ہوئے فن پارے تو مل جائیں گے مگر دنیا میں کوئی حقیقی جل پری کبھی بھی نہیں ملے گی۔ ان کے حُسن کے قصے بھی کتابوں میں مل جائیں گے۔ ان کا ذکر شاعری میں، دیومالائی قصوں میں بھی مل جائے گا ۔مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ مصور تصویر بناتا ہے۔ جل پری اس کے دماغ میں ایک تصور ہے ۔اس کو کینوس پر اتار دیتا ہے۔ ہر مصور کی جل پری مختلف ہوگی۔ کسی کے بال سرخ ہوں گے تو کسی کے سبز۔ کسی کی دم شارک سے ملتی ہوگی تو کسی کی ڈولفن سے۔ کسی کی کھال پر ہیرے جڑے ہوں گے تو کسی جلد مچھلی جیسی ہوگی ۔ اور کسی مصور کی جل پری مچھلی کی دم کی جگہ آکٹوپس کی ٹانگیں رکھتی ہوگی۔

انسانی ارتقاء کے دوران ہمیں 40000 سال پرانی غاروں میں انسانوں کی بنائی ہوئی تصویریں ملتی ہیں۔ اس وقت انسان اس قابل تھا کہ اپنے ذہن میں پائی جانے والی باتوں کو تصویروں کی زبان میں بیان کر سکے۔ مگر اس وقت کی تصاویر زیادہ تر شکار کی داستانیں بیان کر رہی ہوتیں تھیں۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا گیا ، نسبتاً جدید زمانے یعنی 10000 سے 20000 سال کے عرصے میں انسان تصورات کو بھی تصویروں میں ڈھالنے لگا۔ اسی دوران کہیں خدا کا تصور بھی پروان چڑھ چکا تھا۔ اور اب انسان نے دیویوں اور دیوتاؤں کی مورتیں اور تصاویر بنانی شروع کر دیں۔ یعنی تصور ِخدا جو انسان کے ذہن میں تھا، اس نےمختلف اشکال میں دنیا میں تصویری حقیقت میں ڈھالنا شروع کر دیا۔ قابلِ غور امر یہ ہے کہ ایک جل پری کی طرح خدا بھی کئی قسم کے ہیں۔ سورج بھی خدا ہے۔ بعل جو کہ ایک بچھڑا ہے وہ بھی خدا ہے۔ مگر مچھ اور کچھوے بھی خدا ہیں۔ یعنی تصورِ خدا میں ایک جل پری کے تصوراتی کردار سے کہیں زیادہ تضادات ہیں۔ کہیں خدا بادلوں میں گرجتا اور باز کی شکل لیتا ہے۔ تو کہیں وہ ناموجود ہے۔ کہیں وہ پانیوں کا خدا ہے تو کہیں آسمان کا۔ اسی طرح اس کے بے شمار اوتار ہر قسم کے متضاد خداؤں کو دنیا میں متعارف کرتے رہتے ہیں۔ کہیں زیوس، را، سیتھ، بعل، اوڈن، یہواہ اور اللہ۔

خداؤں کی دو اشکال ہیں۔ یا تو وہ بالکل انسان کے دماغ میں رہتے ہیں۔ مسیحت کا خدا کہتا ہے وہ دل میں رہتا ہے۔ اسلام کا خدا بھی کھلے دل سے اس کو قبول کرنے کی بات کرتا ہے۔ دوسرے خدا جو انسانی دل و دماغ (حقیقت میں تو خدا صرف دماغ ہی میں ہوتا ہے) سے نکل کر کینوس اور تراشی ہوئی صورتیں بن جاتے ہیں۔ یعنی خدا کی حقیقت صرف تصور یا پھر تصویر کے اظہار ہی میں ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ خدا صرف ایک تصور ہے۔ جو بھی چیز وجود رکھتی ہے اس کے بارے میں تضادات نہیں ہوتے۔ مگر خدا تضادات سے بھرا پڑا ہے۔ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے بھی اپنے خدا کی ہیئت کے بارے میں بے شمار تضادات ہوتے ہیں۔ مختلف مذاہب کے تصورِ خدا تو بالکل ایک دوسرے سے مکمل متضاد ہیں۔

اگر خدا کی کوئی حقیقت ہوتی تو چین میں رہنے والے جین مت کے ماننے والے، عرب کے مسلمان، افریقہ کے مگر مچھ کے پجاری اور حقیقی امریکی باشندوں کے خداؤں میں کوئی تو یکسانیت ہوتی۔ گھوڑے تو ان سب ملکوں کے لوگوں کے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ پانی کیا چیز ہے ،اس پر بھی کوئی اختلاف نہیں۔ زبان میں پانی کے نام پر اختلاف ضرور ہو سکتا ہے مگر ہر کوئی جانتا ہے کہ  پانی کیا چیز ہے اور اس کو پیا جاتا ہے۔ پانی زمین پر ہر جگہ جہاں انسان رہتا ہے مل جاتا ہے۔ تو پھر خدا جو ہر جگہ موجود ہے اس کے بارے میں اتنے اختلاف کیوں ہیں؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ جل پری کی طرح خدا بھی ایک دماغی تصویر ہی ہے جسے انسان کینوس، کتب اور عبادت گاہوں میں اتار رہا ہے؟؟؟

The Social Status of Women – Before Islam Part II

Shared by Iqbal Sheikh!

قبل از اسلام کے عربوں کی جاہلیت، بد تہذیبی ، برائی، بیوقوفی جہالت کی کہانیاں جھوٹ کے پلندے کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ ان وقتوں کا مکّے کا سماجی ڈھانچہ ایک قبائلی طرز پر تھا، جس میں اپنے وقتوں کی خامیوں کے ساتھ خوبیاں بھی تھیں۔ جن میں مہمان نوازی، فیاضی، وفاداری اور میدان جنگ میں شجاعت کو اہم سمجھا جاتا تھا۔ عربوں کی شاعری اپنی عورتوں کی خوبصورتی، وقار اور اپنے قبیلے کی امن اور جنگ کی حالت میں اپنے قبیلے کی شجاعت اور اقدار سے متعلق ہوا کرتی تھی۔ شاعری پر صرف مردوں ہی کی اجارہ داری نہیں تھی، بلکہ عورتیں بھی شاعری کرتی تھیں۔

عصماء بنت مروان  اور فرزانہ

عصماء بنت  مروان ایک شاعرہ تھی۔ اس کا تعلق قبیلہ اوس کی شاخ بنو خطمہ سے تھا، وہ یزید بن زید بن حصن الخطیمی کی بیوی تھی۔ ان وقتوں میں مدینہ کی عورتیں سماجی طور پر کس قدر متحرک تھیں عصماء اس کی زریں مثال ہے۔عبداللہ بن خطل کی کنیز فرزانہ تھی۔ یہ دونوں  آپؐ کی ہجو لکھا کرتی تھیں۔ بدوی عرب معاشرے میں شاعروں کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ شاعر ات و شعراءاپنے قبیلے کی اجتماعی روح کے ترجمان کا کردار ادا کرتے تھے۔ اور ان کے ادا کردہ الفاظ بہت زیادہ تاثیر کے مالک ہوتے تھے۔ پسندیدہ یا ناپسندیدہ فعل اور کیفیت کا اظہار اشعار کی صورت میں کیا جاتا تھا، کسی بھی ناپسندیدہ شخصیت کی “ہجو” لکھنا بہت عام سی بات تھی۔ شاعروں کو اپنے وقتوں کے نقاد، صحافی یا تاریخ دان بھی کہا جا سکتا ہے۔ شاعری کی اسی قوت کی وجہ سے نبی کریم شاعری کو بہت ناپسند فرماتے تھے۔

“ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا، اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا پیٹ پیپ سے بھر لے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اشعار سے بھر جائے“۔ (صحیح بخاری، کتاب الادب، حدیث نمبر 6155

ہند بنت عتبہ ہند بنت عتبہ قریش کے سب سے بڑے سردار عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی تھی۔ ہند کی پہلی شادی فقیہ بن مغیرہ سے ہوئی، جس سے اس کا بیٹا ابان پیدا ہوا۔ فقیہ سے طلاق لے کر ہند نے ابو سفیان سے شادی کی۔ غزوہ بدر میں ہند کا باپ عتبہ، بھائی ولید، چچا شیبہ اور چچا زاد حنظلہ ہلاک ہوئے۔ ہند ان کے سوگ میں کئی دنوں تک صحراء میں اپنے منہ اور بالوں میں مٹی ڈالے بین کرتی رہی۔ تا آنکہ اس کے خاوند ابو سفیان نے اسے یقین نہ دلایا کہ وہ اس کے رشتہ داروں کے قتل کا بدلہ لے گا۔ اپنے شوہر کے وعدے کے باوجود ہند نے اپنے بدلے کی آگ ٹھنڈی کرنے کیلئے جبیر بن مطعم کے وحشی نامی غلام کی خدمات حاصل کیں۔

ان وقتوں میں جب بھی کوئی جنگ ہوتی تو قریش کی عورتیں اپنے مردوں کے ساتھ میدان میں جنگ میں جایا کرتی تھیں۔ میدان جنگ میں رجز گا کر حوصلہ بڑھانے، زخمیوں کی دیکھ بھال اور مرہم پٹی کرنے کے علاوہ عورتوں کی جنگ میں موجودگی کے پیچھے یہ سوچ کام کر رہی ہوتی تھی کہ ان کی موجودگی میں ان کے مرد دلیری سے لڑیں گے اور میدان سے نہیں بھاگیں گے۔ ہند غزوۂ احد میں ایک زخمی شیرنی کی طرح بے چینی سے گھوم رہی تھی۔ جب بھی وحشی کے پاس سے گزرتی تو اسے کہتی “اے ابو وسمہ تو میرا دل ٹھنڈا کر اور اپنا دل بھی ٹھنڈا کر“۔ جب جنگ شروع ہو گئی تو ہند اپنی ساتھی عورتوں کے ساتھ مردوں کے پیچھے کھڑی ہو گئی اور دف بجا کا یہ گانا شروع کر دیا۔

“ہم رات کو آنے والوں کی بیٹیاں ہیں، ہم لوگ تکئے پر چلتے ہیں۔ اگر آگے بڑھو گے تو ہم گلے لگائیں گی اور گدے بچھائیں گی، اگر منہ موڑو گے بغیر کسی خیال کے قطع تعلق کر دیں گی۔ اے بنو عبدالدار، اے پشت بچانے والو، شمشیر براں سے مارو“۔

وحشی بھالا پھینکنے کا بہت ماہر تھا، اس نے ایک درخت کی آڑ لے کر اپنا بھالا پھینکا جو حمزہ کے پیٹ کے پار ہو گیا۔ جونہی ہند نے یہ منظر دیکھا تو خوشی سے بے اختیار اپنا بازو بند، ہنسلی اور کان کی بالیاں اتار کر وحشی کو دے ڈالیں۔ اور ایکدم سے ایک چٹان پر چڑھ گئی اور رجز گانے شروع کر دیئے۔

“جنگ بدر کا بدلہ ہم نے چکا دیا، اور جنگ کے بعد جنگ بھڑکتی ہے۔ میں شیبہ، ولید، عتبہ اور بکر کے قتل پر صبر نہ کر سکی۔ میں نے اپنے دل کی کدورت نکال لی ہے۔ اور نذر پوری کر لی ہے۔ اے وحشی تو نے میرے سینے کی سوزش کو شفا بخشی۔ وحشی کا شکر پوری زندگی مجھ پر واجب ہے۔ یہاں تک کہ قبر میں میری ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں“۔ (تاریخ ابن کثیر)

مسلمانوں نے 630ء میں مکہ پر قبضہ کیا۔ ہند کے شوہر ابوسفیان بن حرب نے نہ صرف خود بغیر لڑے ہتھیار ڈالے بلکہ قریش مکہ کو بھی لڑنے سے روکا، اور انہیں اپنے گھروں کے دروازے بند رکھنے، کعبہ یا اپنے خود کے گھر میں پناہ لینے کی ہدایت کی۔ یہ دن ہند کی زندگی کا تاریک ترین دن تھا۔اپنے گھر میں پناہ کے لئے آتے لوگوں کو دیکھ کر اس کے غصے کی کوئی انتہاء نہیں تھی۔ آخر اس کا ضبط کا بند ٹوٹ گیا اور اس نے آگے بڑھ کر اپنے شوہر ابو سفیان کی مونچھیں پکڑ لیں اور گھر کے صحن میں جمع لوگوں کو مخاطب کر کے اپنے شوہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا “خنزیر کی گندی چربی سے بنے غبارے کی طرح اس پھولے ہوئے پیٹ والے کو قتل کر دو جو ایک ذرا سا لشکر دیکھ کر حواس باختہ ہو گیا“۔ لیکن سوائے ایک آدھ کے کسی نے بھی مسلمانوں کے لشکر کا سامنا کرنے کی ہمت نہ کی اور مکّہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔

فتح مکہ کے بعد جب آپ مردوں سے بیعت لے چکے تو عورتوں سے بیعت لینی شروع کی۔ ان عورتوں میں ہند کو بھی لایا گیا جو گھونگھٹ نکالے بیٹھی تھی۔ جب اس کی باری آئی تو اس کا گرم صحرائی خون اس قدر ابل رہا تھا کہ اس نے اس بات کی قطعاً پرواہ نہ کی کہ وہ اس وقت اپنے وقت کے فاتح سلطان کے ساتھ مکالمہ کر رہی ہے۔ اور اس کی ذرا سی بے احتیاطی اسے موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہے۔ بیعت لیتے ہوئے آپؐ نے فرمایا: نبی: عہد کرو کہ تم خدائے واحد کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناؤ گی۔ ہند: تم ہم سے ایسی بات کا اقرار لے رہے ہیں، جس کا اقرار تم نے مردوں سے نہیں لیا۔ نبی:اس بات کا عہد کرو کہ چوری نہیں کرو گی۔ ہند: ابو سفیان ایک کنجوس آدمی ہے، بقدرے کفالت خرچہ نہیں دیتا۔ میں صرف اپنا خرچہ چراتی ہوں نبی: یہ چوری نہیں ہے نبی: عہد کرو کہ تم زنا نہیں کرو گی ہند: کیا شریف عورتیں زنا کرتی ہیں۔ نبی: عہد کرو کہ تم اپنے بچوں کو قتل نہیں کرو گی ہند: کیا تم نے بدر میں کوئی ہمارا بچہ چھوڑا ہے جسے ہم قتل کر سکیں۔ ہم نے تو بچوں کو پالا پوسا اور جب وہ جوان ہوئے تو تم نے انہیں مار ڈالا۔تم نے بدر کے روز باپوں کو قتل کیا اور اب تم ہمیں ان کے بچوں کے متعلق نصیحتیں کر رہے ہو۔

صحرائی خون کی یہ گرمی صرف ہند تک ہی محدود نہ تھی۔ بدوی معاشرے میں جہاں فیاضی اور مہمان نوازی وغیرہ کو بہت سراہا جاتا تھا۔ وہیں میدان جنگ میں شجاعت کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اپنے قبیلے کی شجاعت کے قصے شاعروں کا مقبول موضوع ہوتا تھا۔ غزوہ بدر میں بہت سے قریش مکہ قیدی ہو گئے تھے۔ ان میں ابو یزید سہیل بن عمرو نامی قیدی بھی شامل تھا۔ اس کے دونوں ہاتھ رسی کے ساتھ گردن سے بندھے ہوئے تھے۔ اور وہ نبی کریم کے ایک حجرے کے ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا۔ جب ام المومنین سودۃ بنت زمعۃ کی نظر ان پر پڑی، تو وہ چند لمحوں کیلئے بھول گئیں کہ وہ ام المومنین ہیں اور یہ قریشی اب ان کا دشمن ہے اور بے اختیار ان کے منہ سے نکلا۔

“اے ابو یزید تم لوگوں نے اپنے ہاتھ پاؤں دوسروں کے اختیار میں دے دیئے۔ تم لوگ عزت کی موت مر کیوں نہ گئے“۔ نبی کریم نے فرمایا، اے سودۃ کیا عز و جلال والے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت پر ابھار رہی ہو۔ ام المومنین نے کہا، یا رسول اللہ، اس ذات کی قسم ہے، جس نے آپ کو حق پر مبعوث فرمایا ہے۔ جب میں نے ابو یزید کے ہاتھوں کو اس کے گلے میں بندھے پایا، تو میں اپنے آپ کو سنبھال نہ سکی اور یہ بات کہہ دی“۔ (ابن اسحاق، سیرۃ رسول اللہ)

فاطمہ بنت ربیعہ فاطمہ بنت ربیعہ المعروف ام قرفہ کا تعلق بنو فزارا نام کے بت پرست قبیلے سے تھا۔ وہ بارہ بیٹوں اور ایک انتہائی خوبصورت بیٹی کی ماں تھی۔ ام قرفہ وادی القریٰ کے ارد گرد کے تقریبا سو دیہات کی مشترک سردارنی/ رئیسہ تھی۔ اس کے سماجی مرتبے کے اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کے گھر میں پچاس سے زیادہ تلواریں لٹکی ہوئی تھیں، جو مختلف قبائل کے سرداروں نے اسے عزت کے طور پر نذر کی تھیں۔ ایک روایت کے مطابق اگر کہیں دو قبیلے آپس میں لڑ پڑتے تھے تو انہیں لڑائی سے روکنے کیلئے ام قرفہ کا دوپٹہ بھیجا جاتا تھا، جسے نیزے پر گاڑ کر میدان جنگ میں نصب کر دیا جاتا تھا، جس کے بعد لڑائی فوراً ختم ہو جاتی تھی۔

“راوی کہتا ہے کہ ام قرفہ اپنی قوم میں اس قدر بلند مرتبہ سمجھی جاتی تھی کہ لوگ تمنا کیا کرتے تھے کہ ہم کو ام قرفہ کی سی عزت نصیب ہو “۔ (ابن اسحاق، سیرۃ رسول اللہ)

غزوہ خندق کے بعد مسلمان بہت طاقتور ہو چکے تھے، لہذا انہوں نے ارد گرد کی بستیوں پرحملے  شروع کردیئے۔ انہی حملوں میں ایک وادی القریٰ کے علاقے پر تھا۔ اس حملے کی سربراہی کے متعلق دو روایات ہیں۔ ابن اسحاق کی سیرۃ اور تاریخ طبری کے مطابق اس کی سربراہی زید بن حارثہ نے کی۔ جبکہ دوسری روایت کی بنیاد صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے۔ جس کے متعلق یہ حملہ حضرت ابو بکر کی سربراہی میں ہوا۔

“اس واقعہ کے متعلق عبدالرحمن بن ابی بکر سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے زید بن حارثہ کو وادی القریٰ بھیجا۔ وہاں بنو فزارا سے ان کی مڈ بھیڑ ہوئی۔ ان کے بہت سے ساتھی شہید ہوئے۔ اور خود زید بھی مقتولین کے درمیان سے سخت مجروح اٹھائے گئے۔ اس واقعہ میں بنو بدر کے ایک شخص کے ہاتھ سے بنو سعد بن ہذیم کے ورد بن عمر مارے گئے۔ مدینہ آ کر زید نے عہد کیا کہ تا وقتیکہ وہ بنو فزارا پر چڑھائی نہ کر لیں، غسل جنابت بھی نہیں کریں گے۔ جب وہ اپنے زخموں سے صحت یاب ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک فوج کے ساتھ بنو فزارہ کے ساتھ لڑنے کیلئے بھیجا۔ وادی القریٰ میں حریفوں کا مقابلہ ہوا۔ زید نے ان کے بہت سے آدمی قتل کر دیئے۔ قیس بن المسحر الیعمری نے معدہ بن حکمہ بن مالک بن بدر کو قتل کر دیا۔ اور ام قرفہ فاطمہ بن ربیعہ بن بدر کو جو مالک بن حذیفہ بن بدر کی بیوی تھی گرفتار کر لیا۔ یہ ایک بہت سن رسیدہ عورت تھی۔ اس کے ہمراہ اس کی ایک بیٹی اور عبداللہ بن معدہ بھی گرفتار ہوا۔ زید کے حکم سے ام قرفہ کو نہایت بے دردی سے اس طرح قتل کیا گیا کہ اس کے دونوں پیروں میں رسیاں باندھی گئیں اور پھر اسے دو اونٹوں کے درمیان لٹکا کر ان اونٹوں کو ہانکا گیا۔ جس سے اس کے دو ٹکڑے ہو گئے “۔ (طبری:تاریخ الامم و الملوک)

“ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوا کہ اہل فارس نے کسریٰ کی لڑکی کو وارث تخت وتاج بنایا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنا حکمران کسی عورت کو بنایا ہو”۔ ((صیح بخاری، کتاب المغازی۔حدیث نمبر: 4425

“عورت ہونا یا پیرانہ سالی، کچھ بھی ام قرفہ کو دردناک موت سے بچا نہ سکا۔ اس کی ٹانگیں دو مختلف اونٹوں سے باندھی گئیں، اور ان اونٹوں کو مختلف سمتوں میں دوڑایا گیا۔ جس نے اسے دو حصوں میں پھاڑ دیا۔ اسی خاندان کے دو بھائیوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔ زید واپسی پر جلدی سے محمد سے ملا جو اسکی ذہانت کی داد دینے کیلئے اسقدر بے چین تھا کہ صحیح طرح سے کپڑے بھی نہیں پہنے تھے۔ مہم کی کامیابی کا سن کر اس نے اسے ( زید) کو گلے لگا کر چوما۔ ہم نے نہیں سنا کہ نبی نے ام قرفہ کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک پر ناراضگی کا اظہار کیا ہو۔ ام قرفہ کی بیٹی، محمد کو ایک باندی کے طور پر دے دی گئی، جو اس نے اپنے ایک ماننے والے کو دے دی “۔ (ولیم میور، دی لائف آف محمت اینڈ ہسٹری آف اسلام ٹو دی ایرا آف ہیجرہ۔ والیوم چہارم)

درج ذیل حدیث دوسری روایت کو بیان کرتی ہے، جس کے مطابق ام قرفہ کی بیٹی کو اہل مکہ کے حوالے کیا جاتا ہے، تاکہ اس کے بدلے مسلمان قیدیوں کو رہا کروایا جائے۔

“سیدنا ایاس بن سلمہ اپنے والد سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے (قبیلہ) فزارہ سے جہاد کیا اور ہمارے سردار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے جنہیں ہمارا امیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنایا تھا۔ جب ہمارے اور پانی کے درمیان میں ایک گھڑی کا فاصلہ رہ گیا (یعنی اس پانی سے جہاں قبیلہ فزارہ رہتے تھے)، تو ہم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے پچھلی رات کو اتر پڑے۔ پھر ہر طرف سے حملہ کرتے ہوئے پانی پر پہنچے۔ وہاں جو مارا گیا سو مارا گیا اور کچھ قید ہوئے اور میں ایک گروہ کو تاک رہا تھا جس میں (کافروں کے) بچے اور عورتیں تھیں میں ڈرا کہ کہیں وہ مجھ سے پہلے پہاڑ تک نہ پہنچ جائیں، میں نے ان کے اور پہاڑ کے درمیان میں ایک تیر مارا، تو تیر کو دیکھ کر وہ ٹھہر گئے۔ میں ان سب کو ہانکتا ہوا لایا۔ ان میں فزارہ کی ایک عورت تھی جو چمڑا کا جبہ پہنے ہوئے تھی۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی جو کہ عرب کی حسین ترین نوجوان لڑکی تھی۔ میں ان سب کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس لایا، تو انہوں نے وہ لڑکی مجھے انعام کے طور پر دے دی۔ جب ہم مدینہ پہنچے اور میں نے ابھی اس لڑکی کا کپڑا تک نہیں کھولا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بازار میں ملے اور فرمایا کہ اے سلمہ! وہ لڑکی مجھے دیدے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم وہ مجھے بھلی لگی ہے اور میں نے ابھی تک اس کا کپڑا تک نہیں کھولا۔ پھر دوسرے دن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں ملے اور فرمایا کہ اے سلمہ! وہ لڑکی مجھے دیدے اور تیرا باپ بہت اچھا تھا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! وہ آپ کی ہے۔ اللہ کی قسم میں نے تو اس کا کپڑا تک نہیں کھولا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لڑکی مکہ والوں کو بھیج دی اور اس کے بدلہ میں کئی مسلمانوں کو چھڑایا جو مکہ میں قید ہو گئے تھے”۔ (صیح مسلم، باب۔ انعام اور قیدیوں کے بدلے مسلمانوں کا چھڑانا، حدیث نمبر: 1145)

سجاح بنت حارث مسلمان قبل از اسلام کی عورت کی حالت کی ابتری بیان کرتے وقت بہت شدّ و مد سے دعویٰ کرتے ہیں کہ زمانہ قبل از اسلام میں والدین بچیوں کو پیدائش کے فوراً بعد زندہ دفن کر دیا کرتے تھے، اور اس دعوی کیلئے قبیلہ بنو تمیم کا خصوصی طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔ سجاح بن حارث بن سوئید اُسی بنو تمیم نامی بدنام قبیلے میں پیدا ہوئی اور مسلمانوں کے دعوے کے برعکس نہ صرف زندہ رہی بلکہ مردوں کو اپنے قدموں میں جھکایا۔ سجاح کا باپ بنو تمیم کی شاخ بنو تربوع سے تھا جبکہ اس کی ماں بنو تغلب نامی عیسائی قبیلے سے تعلق رکھتی تھی۔ سجاح ایک فال گیر تھی اور اس کا دعویٰ تھا کہ وہ پیغمبرہ ہے اور اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔ جب اس نے قریش مکہ کو ارد گرد کی بستیوں پر قبضہ کرتے دیکھا تو اپنی وحی کو قبیلے کے سامنے پیش کرتے ہوئے اس نے کہا:

“اے اہل ایمان آدھی دنیا ہماری ملکیت ہے۔ دوسرا آدھا حصہ قریش کا ہے، لیکن وہ اپنی حد سے تجاوز کر گئے ہیںِ“۔ (کتاب الاغانی: ابوالفرج اصفہانی)

جب سجاح نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو مالک بن نویرہ، عطارد بن حاجب سمیت بنو تمیم کے کئی بڑے سرداروں نے اسے اپنی نبیہ تسلیم کیا۔ عطارد بن حاجب نے سجاح کے بارے میں کہا۔ ” ہمارا نبی عورت ہے، ہم نے اس کا احاطہ کیا ہوا ہے اور لوگوں کے انبیا مرد ہیں “۔

نبوت کا اعلان کرنے کے بعد سجاح نے مالک بن نویرہ سے رابطہ کیا،جسے نبی کریم نے بنو تمیم کا سردار مقرر کیا تھا۔ مالک نے مسلمانوں کو چھوڑ کر سجاح کی قیادت تسلیم کر لی۔ سجاح نے ارد گرد کے قبیلوں پر حملے شروع کر دیئے۔ رباب نامی قبیلے پر حملہ کرنے پر سجاح نے الہامی پیرایہ میں یہ جملے کہے۔

“سواریاں تیار رکھو، غارت گری کے لئے تیار ہو جاؤ، پھر رباب پر غارت گری کرو، کیونکہ ان کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہے “۔  (طبری: تاریخ الامم و الملوک)

سجاح کی کامیابیوں کے باعث بنو تمیم کےقیس بن عاصم، احناف بن قیس، جنگجو حارث بن بدر جیسے نامور لوگ بھی سجاح کے ساتھ شامل ہو گئے۔ سجاح نے بنو تمیم کے حلیف قبیلوں پر بھی چڑھائی کی لیکن نیاج کے مقام پر اس کا بہت زیادہ نقصان ہوا اور صلح پر مجبور ہو نا پڑا۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور جلد ہی اپنا لاؤ لشکر اکٹھا کر کے کہا:“یمامہ چلو، کبوتر کی طرح اڑتے ہوئے، یہ لڑائی فیصلہ کن ہو گی اور اس کے بعد تم پر کوئی ملامت نہیں رہے گی “۔

سجاح اس کے بعد یمامہ کی طرف بڑھی جہاں مسیلمہ نامی نبوت کا ایک اور دعویدار تھا۔ مسیلمہ اس وقت ثمامہ بن أثال سے جنگ میں مصروف تھا، جس کی پشت پناہی عکرمہ بن ابوجہل کی زیر سرکردگی مسلمان کر رہے تھے۔ سجاح کی تیز رفتار پیش قدمی سے پریشان ہو کر مسیلمہ نے سجاح کی جانب صلح کا ہاتھ بڑھایا، اور اسے “خدا کی زمین” سے حصہ دینے کے وعدے کے علاوہ اسے خدا کی پیغمبرہ بھی تسلیم کر لیا۔

“آدھی زمین ہماری اور آدھی زمین قریش کی ہوتی، اگر برابر تقسیم کی جائے، لہذا اب قریش کا حصہ بھی اللہ نے تمہیں دیا ہے، لہذا اسے بخوشی قبول کرو“۔

“تمہارے رب نے تمہیں دیکھا، تم پر سلامتی بھیجی اور وحشت کو تم سے دور کر دیا۔ اور آخرت کے دن وہ تم کو آتش دوزخ سے بچا کر حیات دوام عطا فرمائے گا۔ نیک لوگوں کی دعائیں ہمارے لئے ہیں، جو نہ شقی ہیں نہ بدکار جو تمام رات اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اور دن کو روزہ رکھتے ہیں تمہارے رب کیلئے، جو مالک ہے بادلوں کا اور بارشوں کا“۔ (محمد بن جریر الطبری: تاریخ الامم و الملوک)

کچھ تاریخ کی کتابوں کے مطابق سجاح نے مسیلمہ سے شادی کر لی۔ اور اس نے یمامہ کی فصلوں سے آدھا حصہ خراج کے طور پر وصول کیا اور واپس چلی آئی۔ واپسی پر سجاح کا سامنا خالد بن ولید سے ہوا اور شکست کھا کر اس کی جماعت منتشر ہوگئی۔ سجاح شکست کھانے کے بعد بنی تغلب کے جزیرہ میں جا بسی، تا آنکہ معاویہ بن ابو سفیان نے قحط سالی کے زمانہ میں اسے کوفہ میں ٹھہرایا، یہاں اس نے اسلام قبول کر لیا۔

قبل از اسلام کی عرب عورتیں بناؤ سنگھار کرتی تھیں، جسم پر نقش و نگار بنوانا بہت عام تھا۔ لیکن عورتیں اپنی سجاوٹ کے باوجود مردوں کی ہوس بھری نگاہ سے بچنے یا زیادتی کے ڈر سے حجاب نہیں اوڑھتی تھیں۔ اور نہ ہی پردے کا کوئی تصور تھا۔ عورت اگر چاہے تو اپنی عزت لٹنے کے ڈر کے بغیر، ننگے طواف کعبہ کر سکتی تھی۔ سلمہ، قتیلہ اور خدیجہ کی مثالوں سے واضع ہوتا ہے کہ عورتیں جائیداد کی وارث بنتی تھیں۔ متمول عورتیں آزادانہ طور پر تجارت کرتی تھیں، اور اس کے لئے مردوں کو ملازم رکھتی تھیں ۔ اپنی مرضی سے شادی کرتی تھیں۔ اور بڑی آسانی سے مرد کو چھوڑ بھی سکتی تھیں ۔ مردوں کو کسی کو چھوڑنے کیلئے تیں بار طلاق کے لفظ کی سہولت اور عورتوں کو طلاق کیلئے انتہائی مشکل عمل وجود میں نہیں آیا تھا ۔ عورتیں سردار بھی تھیں اور حاکم بھی۔ عام عورتیں امن کے علاوہ جنگ میں بھی مردوں کا ساتھ دیتی تھیں۔جہاں وہ رجز گا کر مردوں کا حوصلہ بڑھاتی تھیں، اور زخمی ہو جانے والوں کی دیکھ بھال اور مرہم پٹی کرتی تھیں۔

عورتوں کو صرف سماجی طور پر ہی نہیں بلکہ مذہبی زندگی میں اس کی اہمیت کچھ یوں واضع ہوتی ہے کہ تمام بُت جن کی پرستش کی جاتی تھی ان میں سب سے اہم عورتوں کے بت تھے۔ مکہ میں عزیٰ، طائف میں لات اور مدینہ میں منات سب سے زیادہ مقبول دیویاں تھیں۔ ان مورتیوں کو سب سے زیادہ احترام دیا جاتا تھا جبکہ اللہ نام کا خدا جو ان کا باپ تھا وہ تین میں تھا نہ تیرہ میں۔

قبل از اسلام کی بچیوں کو زندہ دفن کرنے کا دعویٰ انتہائی احمقانہ ہے۔ اگر عرب لوگ اپنی بیٹیاں دفن کر دیا کر دیتے تھے تو پیدائش کے وقت دفن کی جانے والی بچیوں کو کیا مرد جنم دیا کرتے تھے، اگر ان بچیوں کو جنم دینے والی مائیں مرد نہیں بلکہ عورتیں تھیں، تو وہ اپنے بچپن میں دفن ہونے سے کیوں کر بچ گئیں۔ اگر بیٹیاں دفن کر دی جاتی تھیں تو عرب شادی کے لئے لڑکیاں کیا دوسرے ممالک سے درآمد کرتے تھے۔ یا جو بچے پیدا ہوتے تھے وہ بڑے ہو کر مرد بننے کی بجائے لڑکیاں بن جاتے تھے۔ مکہ میں کثیر الازواجی ایک عام سی بات تھی۔ حضور کے پردادا ہاشم کی پانچ بیویاں تھیں، آپ کے دادا عبدالمطلب کی چھ بیویاں تھیں۔ آپ کے والد عبداللہ کی صرف ایک بیوی تھی لیکن اس کی وجہ مکہّ میں عورتوں کی کمیابی نہیں بلکہ عبداللہ کا جلدی فوت ہو جانا ہے، اگر آپ کے والد زندہ رہتے تو اپنے وقتوں کے مطابق ان کی بھی کئی بیویاں ہوتیں۔ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ سب لوگ تو نہیں لیکن اکثریت بیٹیاں دفن کرتی تھی تو ایسی صورت میں بھی لڑکیوں کا تناسب مردوں کی نسبت اتنا کم ہونا چاہیئے تھا کہ بہت سے مرد مل کر ایک عورت کے ساتھ شادی کرتے۔ جبکہ معاملہ اس کے برعکس تھا۔ اگر کوئی ایک آدھ واقعہ ایسا ہوا بھی ہو۔ تو اس کی وجہ بچے کی جنس کی بجائے قحط کے نتیجے کی بدحالی ہوسکتی ہے، جس کی تصدیق موجودہ قرآن بھی کرتا ہے۔

وَلاَ تَقْتُلُوۤاْ أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئاً كَبِيراً

“اور نہ کرو قتل تم اپنی اولاد کو ڈر سے افلاس کے، ہم ہی رزق دیتے ہیں انہیں بھی اور تمہیں بھی،بیشک ہے ان کا قتل کرنا جرم بڑا”۔ (سورۃ بنی اسرائیل، آیت نمبر 31)

فاتح جب بھی اپنے مفتوح کی تاریخ لکھتے ہیں تو وہ مفتوح قوم میں دنیا بھر کے عیب گنواتا ہے اور اپنی تہذیب کو انتہائی نہ صرف افضل گردانتا ہے بلکہ مفتوح سے بھی یہی منواتا ہے۔آپ ؐ کے بعد یہی کچھ مسلمانوں نے کیا ہے، اسلام جب دنیا میں پھیلا تو ایک سے ایک بہترین سماجی، معاشی و مذہبی نظام ثابت کرنے کیلئے قبل از اسلام کے کھاتے میں ہر ممکنہ برائی ڈال دی گئی۔ کسی ایک آدھ انفرادی واقعے کی بنیاد پر پورے ایک عہد کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا ایسے ہی ہے جیسے مستقبل کا کوئی مؤرخ لکھے کہ پاکستانی مرد عورتوں کے چہروں پر تیزاب پھینک دیا کرتے تھے۔ جو باوجود سچ ہونے کے ایک انفرادی فعل ہے اور کسی بھی طور مجموعی معاشرے کی نمائندگی نہیں کرتا۔

The Social Status of Women – Before Islam Part 1

Shared by Iqbal Sheikh!

The Social Status of Women – Before Islam

….

ظہورِ اسلام سے پہلے کے عہد کو  مسلمان “دور ِجاہلیت” یا جاہلیۃ  سے موسوم کرتے ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ  اُس دور میں جہاں دنیا (مکہ اور گرد و نواح) ہر ممکنہ برائی سے لتھڑی ہوئی تھی، وہیں عورتوں کی حالت بھی بہت ناگفتہ بہ تھی۔ سر زمینِ عرب میں بچی کی پیدائش خوشی کی بجائے باعث ِذلت سمجھی جاتی تھی۔ بچیوں کو پیدا ہونے کے بعد زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ عورتوں کی حیثیت غلاموں یا جانوروں سے مختلف نہیں تھی ۔انہیں خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ شادی کے مسئلے پر بھی ان کی رائے نہیں لی جاتی تھی۔ بلکہ جو سب سے زیادہ بولی دے، لڑکی اس کے حوالے کر دی جاتی تھی۔ عورت مرد کے نزدیک ایک جنسی کھلونا تھی۔ وہ جائیداد کی مالک بن سکتی تھی اور نہ ہی اسے وراثت میں سے حصّہ ملتا تھا۔ بلکہ خاوند کے مرنے کے بعد بیٹے اپنے باپ کی بیویوں کو ورثے کے طور پر آپس میں بانٹ لیا کرتے تھے۔ یا انہیں گھر سے نکال دیا جاتا تھا۔ بیوہ کو ایک سال تک ایک ایسے حجرے میں رہنا پڑتا تھا جس میں روشنی یا ہوا کا گزر نہیں ہوتا تھا۔ اس حجرے کو چھوڑنے کی اسے اجازت نہیں ہوتی تھی۔ وہ نہ تو نہا سکتی تھی اور نہ ہی کپڑے بدل سکتی تھی۔ جب وہ ایک سال بعد باہر آتی تھی تو اس پر اونٹ کا پیشاب پھینکا جاتا تھا۔ جس سے یہ مطلب ہوتا تھا کہ اس عورت نے اپنی عدت پوری کر لی ہے۔ غرضیکہ عورت ذلت کی گہرائیوں میں گری ہوئی تھی۔ جبکہ اسلام نے عورت کو نہ صرف تمام حقوق دیئے بلکہ اس کی حیثیت کو اوجِ ثریا کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

کیا زمانہ قبل از اسلام کی عورت کی حالت واقعی اس قدر بری تھی جتنی ہمیں بتائی جاتی ہے ۔یا یہ سراسر جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈا ہے۔ اس دعوے کے سچ اور جھوٹ کی تفصیل میں جانے سے پہلے ضروری ہے کہ لگے ہاتھوں بعد از اسلام کی عورت کی حالت کو بھی دیکھا جائے۔ تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ اسلام عورتوں کی حالت میں کونسی بہتری لے کر آیا ہے۔ یا اسلام کے بعد عورتوں کی قدر و منزلت میں کونسا اضافہ ہوا ہے۔ چونکہ ہر ملک یا ثقافتی گروہ کے اپنی معاشرتی اقدار اور اصول و قواعد ہوتے ہیں جو کسی بھی ملک کی عورتوں کے سماج میں مقام کا تعین کرتے ہیں۔ لہذا اس کیلئے سعودی عرب، ایران یا کسی اور مخصوص اسلامی ملک میں عورتوں کی حالت کا تجزیہ کرنے کی بجائے مناسب یہ ہے کہ اسلام کی مقدس کتابوں کا مطالعہ کیا جائے۔ اور انہی کتابوں میں درج کی گئی عبارت سے اسلام کے عورتوں کی حالت میں سدھار لانے کے اسلامی دعوے کا موازنہ قبل از اسلام کی عرب عورت سے کیا جائے۔

لیکن جونہی عقیدت کی چاردیواری سے باہر نکل کر  ہم اسلام میں عورت کی قدر و منزلت جاننے کیلئے قرآن اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو عورتوں کی اسلام میں حیثیت ان دعوؤں کے بالکل برعکس نطر آتی ہے ،جن کا ذکر اکثر سننے اور پڑھنے میں آتا ہے۔ عورتوں کو اوج ِثریا پر پہنچانا تو در کنار، اسلام نے عورت کا مقام اس قدر گرا دیا ہے کہ اسے اٹھنے کیلئے اگر صدیاں نہیں تو کم از کم بہت سے عشروں کی جان توڑ جدوجہد کی اشد ضرورت ہے۔قر آن مرد کو عورتوں سے نہ صرف افضل ٹھہراتا ہے، بلکہ سدھارنے کے نام پر عورتوں کی پٹائی کی بھی ہدایت کرتا ہے۔

ٱلرِّجَالُ قَوَّٰمُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَآ أَنْفَقُواْ مِنْ أَمْوَٰلِهِمْ فَٱلصَّٰلِحَٰتُ قَٰنِتَٰتٌ حَٰفِظَٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ ٱللَّهُ وَٱلَّٰتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَٱهْجُرُوهُنَّ فِي ٱلْمَضَاجِعِ وَٱضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيّاً كَبِيراً

مرد حاکم اور نگران ہیں عورتوں کے، اس وجہ سے کہ فضیلت دی ہے اللہ نے انسانوں میں بعض کو بعض پر، اور اس بنا پر کہ خرچ کرتے ہیں مرد اپنے مال ( ان پر ) ، پس نیک عورتیں (ہوتی ہیں) اطاعت شعار، حفاظت کرنے والیاں (مردوں کی) غیر حاضری میں، ان سب چیزوں کو جن کو محفوظ بنایا ہے اللہ نے۔ اور جن عورتوں سے اندیشہ ہے تمہیں، سو نصیحت کرو اور ان کو (اگر نہ مانیں تو) تنہا چھوڑ دو ان کو بستروں میں اور (پھر بھی نہ مانیں تو) مارو ان کو، پھر اگر اطاعت کرنے لگیں وہ تمہاری، تو نہ تلاش کرو ان پر زیادتی کرنے کی راہ، بیشک اللہ ہے سب سے برتر اور بڑا۔(سورۃ النساءآیت نمبر34)

اسلام میں عورت کو مرد کیلئے ایک ایسی چیز قرار دیا گیا ہے، جس کا مقصد مرد کی جنسی خواہش کی تسکین اور اولاد پیدا کرنا ہے۔ قرآن کے مطابق عورتیں کھیتیاں ہیں اور مرد کسان ہیں۔ اور انہیں ان کھیتیوں کو اپنی مرضی سے “کاشتکاری” کیلئے استعمال کر نے کی اجازت دی گئی ہے۔

نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُواْ حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ وَقَدِّمُواْ لأَنْفُسِكُمْ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَٱعْلَمُوۤاْ أَنَّكُمْ مُّلاَقُوهُ وَبَشِّرِ ٱلْمُؤْمِنِينَ

تمہاری عورتیں کھیتیاں ہیں تمہاری، سو جاؤ اپنی کھیتی میں، جس طرح چاہو (استعمال کرو) اور آگے کی تدبیر کرو تم اپنے واسطے ، اور ڈرتے رہو اللہ سے اور خوب جان لو کہ پیش ہونا ہے اس کے حضور اور خوشخبری دے دو (اے نبی) اللہ والوں کو ۔(سورۃ البقر آیت نمبر۔ 223)

اسلام میں عورت اور مرد کی “برابری” کیلئے قرآن میں کچھ یوں درج ہے:

وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ

البتہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ حاصل ہے۔(سورۃ البقرۃ آیت نمبر۔ 228)

عورتوں کو ذہنی طور پر پسماندہ قرار دینے کا بیان قرآن میں کچھ یوں کیا گیا ہے۔ یہی آیت ایک آدمی اور دو عورتوں کی گواہی کو برابر قرار دئے جانے کی قرآنی بنیاد ہے۔

وَٱسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ مِّن رِّجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَٱمْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ ٱلشُّهَدَآءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا ٱلأُخْرَىٰ

اور گواہ بنا لو دو گواہ، اپنے مردوں میں سےپھر اگر نہ موجود ہوں دو مرد تو ایک مرد اور دو عورتیں، ایسے لوگوں میں سے جنہیں تم پسند کرتے ہو بطور گواہ تاکہ ( اگر) بھول بھٹک جائے ان ( عورتوں) میں سے ایک، تو یاد دہانی کرا دے ان میں سے دوسری اس کو۔(سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 282)

عورت اور مرد کی سماجی اور مذہبی حیثیت کا تعین جس طرح سے اسلام میں کیا گیا ہے، درج ذیل حدیث اس کی ایک بہتریں مثال ہے۔

حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو کسی کیلئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ شوہر کو سجدہ کرے (جامع ترمذی ، ابواب الرضاع، حدیث نمبر 1030)

اسلام جس انداز میں عورتوں کی تذلیل کرتا ہے، اس پر چند درج ذیل احادیث بہت اچھے انداز میں روشنی ڈالتی ہیں۔

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سالم بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمرؓ نےبیان کیا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا، آپ نے فرمایا تھا کہ نحوست صرف تین چیزوں میں ہوتی ہے۔ گھوڑے میں، عورت میں اور گھر میں۔(صحیح بخاری، کتاب الجہاد، حدیث نمبر 2858)

حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا، رسول اللہ عید الاضحیٰ یا عید الفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ عورتوں کے پاس سے گذرے اور فرمایا، اے عورتوں کی جماعت صدقہ کرو کیونکہ میں نے جہنم میں تم کو ہی زیادہ دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا، یارسول اللہ کیوں؟، آپ نے فرمایا کہ تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور شوہر کی نا شکری کرتی ہو باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے۔ میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا۔ عورتوں نے عرض کیا کہ ہمارے دین اور عقل میں نقصان کیا ہے رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟۔ انہوں نے کہا، جی ہے۔ آپؐ نے فرمایا، یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپؐ نے پوچھا کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تونہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے۔ عورتوں نے کہا، ایسا ہی ہے۔ آپ نےفرمایا کہ یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔(صیح بخاری، کتاب الحیض، حدیث نمبر 304)

آپؐ نے فرمایا کہ میں نے جنت دیکھی اور اس کا ایک خوشہ توڑنا چاہا تھا۔ اگر میں اسے توڑ سکتا تو تم رہتی دنیا تک کھاتے اور مجھےجہنم بھی دکھائی گئی۔ میں نے اس سے زیادہ بھیانک اور خوفناک منظر نہیں دیکھا۔ میں نے دیکھا اس میں عورتیں زیادہ ہیں۔ کسی نے پوچھا، یا رسول اللہ اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا، اپنے کفر کی وجہ سے۔ پوچھا گیا کیا اپنے اللہ کا کفر (انکار) کرتی ہیں؟۔ آپ نے فرمایا کہ شوہر اور احسان کا کفر کرتی ہیں۔ زندگی بھر تم کسی عورت کےساتھ حسن سلوک کرو، لیکن کبھی اگر کوئی خلاف مزاج بات آ گئی تو فورا یہی کہے گی کہ میں نے تم سے کبھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔(صیح بخاری، کتاب الکسوف حدیث نمبر 1052)

درج ذیل حدیث میں عورت کی صرف تذلیل ہی نہیں کی گئی بلکہ اسے ایک ایسی چیز کے طور پر پیش کیا ہے جو مرد اپنے فائدے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا، عورت مثل پسلی کے ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ دو گے۔ اور اگر سے فائدہ حاصل کرنا چاہو گے تو اس کے ٹیڑھ کے ساتھ ہی فائدہ حاصل کرو گے۔(صیح بخاری، کتاب النکاح، حدیث نمبر: 5184)

مردوں کی عورتوں پر فضیلت صرف آزاد مردوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ جہاں تک حقوق کا سوال ہے مرد غلام کو اپنی ساتھی غلام عورتوں سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔

حضرت قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس غلام اور باندی تھے۔ حضرت عائشہ کا یہ ارادہ ہوا کہ دونوں کو آزاد کر دیں۔ پھر انہوں نے اس بات کا تذکرہ رسول کریم کے سامنے کیا تو آپ نے فرمایا۔ اے عائشہ تم باندی سے پہلے غلام کو آزاد کرنا۔(سنن نسائی، جلد دوم، کتاب الطلاق، حدیث نمبر 3479)

مذہبِ اسلام کے نزدیک مرد کی جنسی خواہش کی تسکین اس قدر اہم ہے کہ روز ِمحشر عورت کا جنت اور جہنم جانے کا فیصلہ اس بنیاد پر ہو گا، کہ وہ کس حد تک اپنے شوہر کو جنسی طور پر مطمئن کرسکتی ہے۔

حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا: جو عورت اس حالت میں رات گزارے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو، وہ جنتی ہے ۔(جامع ترمذی ، ابواب الرضاع، حدیث نمبر 1032)

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا، جب شوہر بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ آنے سے ( ناراضگی کی وجہ سے ) انکار دے، تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت بھیجتے ہیں ۔(صیح بخاری، کتاب النکاح، حدیث نمبر: 5193)

حضرت طلق بن علیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو صحبت کیلئے بلائے تو وہ ہر حال میں اس کے پاس جائے، خواہ وہ تندور پر ( روٹیاں پکانے کیلئے مصروف ) ہی کیوں نہ ہو۔(جامع ترمذی، ابواب الرضاع، حدیث نمبر 1031)

کہا جاتا ہے کہ عربوں کی پہلی تحریری کتاب قرآن حکیم ہے۔ اس سے پہلے کا ادب صرف شاعری تک تھا، جو تحریر کی بجائے صرف حافظے تک محدود تھا۔ لیکں بفرض ِمحال اگر واقعی پہلے کوئی لکھی ہوئی تحریر تھی تو وہ اب دستیاب نہیں ہے۔ قبل از اسلام کے ادب کی عدم دستیابی کے باعث اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کے ہی لکھے ہوئے ادب کا سہارا لیا جائے اور اسی میں سے قبل از اسلام کی عرب عورت کی حالت کو جاننے کی کوشش کی جائے۔ ماریہ بنت شمعون کے واقعے سے جڑی ہوئی ایک حدیث اس سلسلہ میں زمانہ قبل از اسلام کی عورتوں کی ” کسمپرسی” کی داستان کچھ یوں بتاتی ہے۔

عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ مجھے بہت زیادہ تجسس تھا کہ حضرت عمر سے پوچھوں کہ قرآن کریم میں کن دو ازواج مطہرات کا ذکر تھا۔ حتیٰ کہ میں نے اُن کے ساتھ فریضہ حج ادا کیا، میں نے اُن سے پوچھا، اے امیر المومنین وہ کونسی دو اُم المومنین تھیں، انہوں نے فرمایا، عائشہ اور حفصہ۔ آپ نے مزید فرمایا کہ ہم قریشی اپنی بیویوں پر حاوی ہوا کرتے تھے لیکن جب ہم مدینہ آئے تو ہم نے دیکھا کہ یہاں انصاری عورتیں اپنے مردوں پر حاوی ہیں۔ ان انصاری عورتوں کی دیکھا دیکھی ہماری عورتوں نے بھی وہی روش اپنا لی ہے۔ میں ایک بار اپنی بیوی پر چلّایا، جواب میں وہ بھی ایسا ہی چلّائی، جو مجھے اچھا نہیں لگا، میں نے اُس سے اس کی وجہ پوچھی، تو اس نے بتایا رسول اللہ کی عورتیں بھی اُن کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھتی ہیں، بلکہ اُن سے پورا پورا دن روٹھی رہتی ہیں۔ میں حفصہ کے پاس گیا اور پوچھا کیا تم رسول اللہ کے ساتھ پورا پورا دن روٹھی رہتی ہو، حفصہ نے اس کا جواب اثبات میں دیا۔(صیح بخاری، کتاب النکاح، حدیث نمبر: 5191 کا ایک حصہ)

مندرجہ بالا حدیث مدینہ کی عام عورتوں کے ” مردوں پر حاوی” ہونے کا ذکر کرتی ہیں۔علاوہ ازیں  ہمیں اس سلسلہ میں زیادہ تفصیلات نہیں ملتیں۔  مسلمانوں کی لکھی ہوئی کتابوں میں کچھ خاص عورتوں کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے، جو شائد عام عورتوں کی بہت زیادہ نمائندگی نہ کرتی ہوں۔ لیکن پھر بھی ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ زمانہ قبل از اسلام میں کچھ عورتیں ایسی بھی تھیں جن کے وقار اور اثر و رسوخ کا یہ عالم تھا کہ اس کی نظیر ہمیں اکیسویں صدی کے موجودہ مسلمان معاشروں میں بھی نہیں ملتی ۔

سلمہ بنت عمرو
سلمہ بنت عمرو، نبی کریم کی پردادی اور آپ کے دادا عبدالمطلب بن ہاشم ( اصلی نام: شیبہ بن عمرو) کی ماں تھیں۔ آپ کا تعلق قبیلہ خزرج کی ذیلی شاخ بنو نجار سے تھا۔ سلمہ کو خزرج قبیلہ کی سب سے با اثر خاتون سمجھا جاتا تھا۔ آپ ایک کاروباری خاتون تھیں اور اپنے تجارتی معاملات خود اپنی نگرانی میں طے کرتی تھیں۔سلمہ جب اور جس سے چاہتیں اپنی مرضی سے شادی کرتی تھیں اور جب جی چاہا اس مرد کو چھوڑ دیتی تھیں۔ آپکا پہلا خاوند أحيحۃ ابن جولۃ تھا جسے یثرب کا سورما سردار سمجھا جاتا تھا۔ اس کا یثرب سے باہر قبۃ میں ایک بہت بڑا ذاتی قلعہ تھا۔ اس سے آپ کے دو بیٹے عمرو اور معبد ہوئے۔ آپکا دوسرا خاوند آپ کے اپنے یہودی قبیلہ بنو نجار سے تھا۔ اس کا نام مالک بن عدی تھا۔ آپکی ان سے ملائکہ اور نوار نامی دو بیٹیاں ہوئی۔ آپ کے تیسرے خاوند کا نام عوف بن عبدالعوف تھا۔ اس سے آپ کی شفاء بنت عوف نامی ایک بیٹی تھی۔

نبی کریم کے پردادا ہاشم بن عبدالمناف ( اصلی نام :عمرو بن مغیرہ) سے شادی کرتے وقت سلمہ نے یہ شرط منوائی کہ وہ اپنا کاروبار ہاشم کے کاروبار میں مدغم نہیں کریں گی، بلکہ دونوں کا کاروبار ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گا۔ سلمہ مکّہ منتقل نہیں ہوں گی بلکہ مدینہ میں قیام پذیر رہیں گی اور ہاشم وہیں ان کے پاس آیا کریں گے۔ پیدا ہونے والی اولاد بھی اپنی ماں کے پاس رہے گی۔ ہاشم یہ سب شرطیں مان کر سلمہ سے شادی کرتے ہیں۔

قریش کے ایک قافلہ کے ساتھ جو تجارتی مال و اسباب سے بھرا پڑا تھا، ہاشم بھی چل پڑے۔ راستہ مدینہ سے گزرتا تھا۔ قافلہ مقام سوق النبطہ (نبطی قوم کا بازار) میں ٹھہرا۔ یہاں ایسے بازار میں پہنچے جو سال میں ایک بار لگتا اور سب لوگ اس میں جمع ہوتے۔ قافلے والوں نے خرید و فروخت کی اور آپس میں لین دین ہوئی۔

ایک مقام جو سر بازار واقع تھا۔ اہل قافلہ کی ایک عورت پر نظر پڑی۔ ہاشم نے دیکھا کہ اس عورت کو جو چیز خریدنی ہے ان کے متعلق احکام دے رہی تھی۔ یہ عورت بہت دور کی سوچنے والی مستقل مزاج حسن والی نظر آئی۔

ہاشم نے معلوم کیا، یہ بیوہ ہے یا شوہر والی۔ معلوم ہوا بیوہ ہے، پہلے احیحۃ کے عقد نکاح میں تھی ۔ عمرو اور معبد دو لڑکے بھی اس کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ پھر اس (سلمہ) نے جدا کر دیا ( طلاق دے دی)۔ اپنی قوم میں عزیز و شریف ہونے کی وجہ سے یہ عورت اس وقت تک کسی کے نکاح میں نہ آتی، جب تک یہ شرط طے نہ ہو جاتی کہ اس کی عنان اختیار (ہر چیز کا اختیار) اسی کے ہاتھ میں رہے گا۔ کسی شوہر سے نفرت اور ناپسندیدگی آتی تو اس سے جدا ہو جاتی (یعنی خود اس کو طلاق دے دیتی۔ اس کا نام تھا سلمہ بنت عمرو بن زید بن لبید ابن خداش بن عمر بن غنم بن دعی بن النجار )۔

ہاشم نے اسے پیغام دیا۔ ان کی شرافت اور نسب کا جب حال معلوم ہوا تو فوراَ راضی ہو گئی۔ ہاشم اس کے پاس آئے اور دعوت ولیمہ کی تیاری کی۔ جو وہاں تھے سب کو بلایا۔ تعداد میں یہ چالیس قریشی تھے۔(طبقات ابن سعد، جلد اول)

وہاں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد ہاشم اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے غزہ روانہ ہوتے ہیں ، جہاں وہ بیمار پڑتے ہیں ۔جس کی نتیجہ میں وہ وہیں فوت ہو جاتے ہیں۔ ان کے ساتھی تاجر انہیں غزہ میں ہی دفن کر دیتے ہیں۔ بعد میں سلمہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے جنہیں وہ شیبہ کا نام دیتی ہیں۔ بچہ وہیں ان کے پاس پلتا ہے۔ جب شیبہ (عبدالمطلب) چودہ سال کے ہو جاتے ہیں، تو ان کے چچا مطلب بن عبدالمناف چاہتے ہیں کہ اپنے بھتیجے کو مکہ لے آئیں۔ لیکن سلمہ راستے کی رکاوٹ تھیں۔

ثابت نے کہا: میری رائے میں نہ تو سلمیٰ اسے تیرے سپرد کرے گی اور نہ اس کے ماموں اسے لے جانے دیں گے۔ اگر تو اسے وہیں رہنے دے کہ اپنے ننھیال میں اس وقت تک رہے کہ خود بخود اپنی مرضی سے تمہارے پاس آ جائے تو کیا حرج ہے۔(طبقات ابن سعد، جلد اول)

مطلب بن عبدالمناف اس مسئلے کا حل یوں نکالتے ہیں کہ یثرب جا کر شیبہ کا پتہ چلاتے ہیں اور اسے چوری سے اغوا کر کے مکہ لے آتے ہیں۔

اس کی ماں کو رات ہونے تک اس کے جانے کی اطلاع نہ ہوئی۔ جب رات کو اسے اس کی اطلاع ہوئی۔ اس نے شور مچایا کہ کوئی شخص میرے بچے کو بھگا لے گیا۔ مگر پھر اس کو اطلاع دی گئی کہ اس کا چچا اسے لے گیا ہے۔(الطبری، تاریخ الامم و الملوک، جلد 2)

سلمہ بنت عمرو کا ایک با اختیار عورت کی حیثیت سے آزادانہ طور پر کاروبار کرنا، اپنی مرضی سے شادی کرنا، اپنی مرضی سے خاوند کو چھوڑ دینا، بچے کی ملکیت اپنے پاس رکھنا، نہ صرف مسلمانوں کے قبل از اسلام کی عرب عورت کی بیکسی کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرتا ہےبلکہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس قدر آزادی تو آج کی مسلمان عورت کے پاس بھی نہیں ہے۔ سلمہ کی ہی کہانی سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کے دعوے کے برعکس ان وقتوں کی عورت اپنے شوہر کے مرنے کے بعد اس کے مال و جائداد کی مکمل وارث ہوتی تھی۔

قتیلہ بنت نوفل
سیرۃ کی تمام کتابوں میں ایک عورت کا ذکر ہے، جس کا نام قتیلہ بنت نوفل بتایا جاتا ہے۔ وہ عورت کعبہ کے نزدیک رہتی تھی۔ ایک دن جب عبداللہ بن عبدالمطلب اپنے باپ کے ساتھ جا رہے تھے اور اس عورت کے پاس سے گذرے تو اس نے کہا:

اے عبداللہ، کہاں جاتے ہو؟، فرمایا، اپنے والد کے ساتھ جا رہا ہوں۔ اس نے کہا جتنے اونٹ تمہاری طرف سے ذبح کئے گئے ہیں، اسی قدر میں تمہاری نظر کرتی ہوں، مجھ سے شادی کر لو۔ عبداللہ نے فرمایا، میں اپنے باپ کا مطیع فرمان ہوں، ان کی منشا کے خلاف نہیں کر سکتا“۔(سیرۃ رسول اللہ، ابن اسحاق)

عبدالمطلب نے منت مانی تھی کہ اگر اس کے ہاں دس بیٹے پیدا ہوئے تو وہ ایک بیٹے کی قربانی دیں گے۔ جب آپ کے گھر میں دس بیٹے پیدا ہو کر جوان ہوئے تو آپ نے یہ فیصلہ کرنے کیلئے قرعہ نکالا کہ کس بیٹے کی قربانی دیں۔ یہ قرعہ عبداللہ کے نام نکلا تھا۔ عبداللہ باپ کا لاڈلا تھا اور عبدالمطلب اس کی قربانی نہیں دینا چاہتے تھے۔ لہذا اس نے خیبر کی ایک کاہنہ سے اس کا حل پوچھا۔ جس نے اسے اونٹوں کی قربانی کرنے کیلئے تجویز دی، جن کی تعداد بڑھتے بڑھتے سو تک پہنچ گئی۔ لہذا عبدالمطب نے سو اونٹوں کی قربانی دے کر عبداللہ کو بچا لیا۔

قتیلہ کے متعلق زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ کیا وہ بیوہ تھی یا کنواری؟ اور وہ اتنی امیر کیسے ہو گئی کہ اپنے من پسند آدمی سے شادی کیلئے سو اونٹ دینا اسے گھاٹے کا سودا نہیں لگا۔ کیا یہ سب مال و اموال اپنے باپ کے ورثے سے ملا تھا یا اپنے خاوند سے۔لیکن دونوں ہی صورتوں میں وہ مسلمانون کے اس دعوے کو جھٹلا دیتی ہے کہ عورت کو باپ یا شوہر کے مرنے کے بعد ورثے میں سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قتیلہ نے خود اپنی مرضی سے اپنے پسندیدہ مرد عبداللہ سے اپنی شادی کی بات کی، نہ کہ اسے زیادہ بولی دینے والے کے حوالے کیا گیا۔

خدیجہ بنت خویلد

خدیجہ نبی کریم کی پہلی بیوی تھیں۔ آپ ایک قریش کے ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھنے کے علاوہ ایک کامیاب اور امیر تاجرہ تھیں۔ آپکی مال و دولت، حسن اور عزت کی وجہ سے آپ کو امیرہ قریش، طاہرہ اور خدیجہ الکبریٰ کہا جاتا تھا۔ آپ کی امارت کا یہ حال تھا کہ جب گرمیوں میں قریش کے کاروانِ تجارت شام اور سردیوں میں یمن کی جانب جایا کرتے تھے، تو آپ اکیلی کا سامان تجارت سے لدا کارواں پورے قبیلۂ قریش کے مجموعی کارواں سے بڑا ہوتا تھا۔ آپ اپنا کاروبار اپنے ملازموں کے ذریعے کرتی تھیں۔ نبی کریم بھی اپنے چچا ابو طالب کی سفارش پر آپ کے قافلے کے ساتھ شام گئے تھے۔

آپ کے مال و دولت اور حسن کی وجہ سے کئی لوگوں نے آپ سے شادی کی خواہش کی لیکن آپ نے انکار کر دیا۔ لیکن نبی کریم سے شادی کرنے کیلئے آپ نے خود اپنی سہیلی نفیسہ یا بہن کے ذریعے پیغام بھیجا۔ حضرت خدیجہ کے رسول اللہ سے نکاح کے متعلق ابن سعد نے طبقات میں کچھ روایتوں کو جھوٹی روایات کہہ کہ بھی ذکر کیا ہےجن کے مطابق:

روایت نمبر 1: معمر بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے، کہ ابو مجلز نے روایت کی ہے۔ کہ خدیجہؓ نے اپنی بہن سے کہا (محمد ) کے پاس جا کر ان سے میرا تذکرہ کر، یہی الفاظ تھے یااسی قسم کے تھے۔ خدیجہ کی بہن آنحضرت کے پاس آئیں اور جو خدا نے چاہا، آنحضرت نے ان کو جواب دیا۔

ان لوگوں (خدیجہؓ کی طرف کے لوگوں) نے اتفاق کر لیا، کہ رسول اللہ ہی خدیجہ کے ساتھ نکاح کریں۔ خدیجہؓ کے والد کو اتنی شراب پلائی گئی کہ وہ مست ہو گئے۔ پھرمحمد کو بلایا اور خدیجہ کو آپ کے نکاح میں دے دیا۔ بوڑھے کو ایک لباس پہنا دیا، جب وہ ہوش میں آیا تو پوچھاکہ یہ لباس کیسا؟لوگوں نے جواب دیا، یہ تیرے داماد ( محمد ) نے پہنایا ہے۔

بوڑھا بگڑ گیا اور ہتھیاراٹھا لیا، بنی ہاشم نے بھی ہتھیار سنبھال لئے، اور کہا کچھ اس قدر ہم تمہارے خواہشمند نہ تھے۔ اس گہما گہمی کے بعد آخر کار صلح ہو گئی۔

روایت نمبر 2: محمد بن عمر اس سند کے علاوہ دوسری سند سے روایت کرتےہیں۔ کہ خدیجہ نے اپنے والد کو اس قدر شراب پلائی کہ وہ مست ہو گیا۔ گائے ذبح کی، والد کے جسم میں خوشبو لگائی اور مخطط ( دھاری دھار) لباس پہنایا، جب اسے ہوش آیا تو پوچھا : ما ھذا العقیر، و ما ھذا العبیر، و ما ھذا الجبیر ( یہ ذبیحہ کیسا؟ یہ خوشبو کیسی؟، اور یہ دھاری دھار لباس کیسا؟)۔

خدیجہؓ نے جواب دیا تو نے مجھے محمدکے عقد نکاح میں دے دیا ہے ( یہ سب اسی نتیجہ میں ہے) اس نے کہا: میں نے یہ کام نہیں کیا۔ بھلا میں ایسا کام کیوں کروں گا۔جس وقت بزرگان قریش نے تجھے پیغام دیا، میں نے تو اسے اس وقت بھی قبول نہیں کیا تھا (طبقات ابن سعد)۔

 حضرت خدیجہ سے شادی سے پہلے نبی کریم کا کوئی بھی ذریعہ معاش نہیں تھا۔ آپ محض انکی بکریاں چرایا کرتےتھے۔

ہم (جابرؓ بن عبداللہ) نے عرض کیا، یا رسول اللہ کیا آپ بھی بکریاں چراتے تھے۔ فرمایا، ہاں، اور کوئی ایسا پیغمبر نہیں جس نے نہ چرائی ہوں۔(طبقات ابن سعد، جلد اول، صفحہ 139)

خدیجہ سے شادی کے بعد محمدؐ امیر ہو گئے، اور آپ نے بکریاں چرانا ترک کر دیا۔ (دراسۃ تحلیلیۃ فی شخصیۃ محمد از ذکی امین)

عقیدت کی پٹی ہٹا کر دیکھا جائے تو مندرجہ بالا روایات کی سچائی پر شک کرنے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ایک عورت جو انتہائی حسین ، معزز اور امیر تھی کہ قریش مکّہ سے کوئی بھی اس کے ساتھ شادی کرنا باعث فخر سمجھے، اور وہ عورت ایک ایسے شخص جو بکریاں چراتا ہوسے شادی کرنا چاہے، جو خود اپنے چچا کے زیر ِسایہ  پل رہا تھا۔ جس وجہ سے چچا نے بھی اپنی بیٹی کا رشتہ دینے سے انکار کر دیا تھا، اس آدمی سے اتنی معزز عورت شادی کرنا چاہے تو اُس کے باپ کا طیش میں آنا کوئی عجیب محسوس نہیں ہوتا۔ رسول کریم نے پوری زندگی سوائے حضرت خدیجہ کے قافلے کے ہمراہ جانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا۔ شادی سے پہلے چچا نے اور شادی کے بعد آپ کی کفالت مکمل طور پر حضرت خدیجہ نے کی۔ چنانچہ جب ایک بار حضرت عائشہ نے حضور اکرم کو کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ قریش کی اس بوڑھی عورت کا بار بار ذکر فرما کر اس کی تعریف فرماتے رہتے ہیں حالانکہ اللہ نے اس کے بعد آپ کو مجھ جیسی جوان عورت بیوی کے طور پر عطا کی ہے۔اس پر آپ نے فرمایا۔: ” بیشک اللہ نے مجھے اس سے اچھی ( بیوی) نہیں دی۔ اس نے مجھے قبول کیا جب لوگوں نے مجھے دھتکارا، وہ مجھ پر ایمان لائی جب لوگوں نے مجھ پر شک کیا۔ اس وقت میری مالی مدد کی جب دوسرے لوگوں نے مجھے اس سے محروم کر رکھا تھا۔، اور اس سے اللہ نے مجھے اولاد عطا فرمائی”۔

حضرت خدیجہ پر  مکمل کفالت کی وجہ  سے آپ نے ان کی زندگی میں دوسری شادی کی  نہیں کی، حالانکہ کثیر الازواجی مکّہ میں ایک عام سی بات تھی۔ لیکن آپ نے حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد کئی اور شادیاں فرمائیں ۔

سلمہ بنت عمر، قتیلہ بنت نوفل اور خدیجہ بنت خویلد کے واقعات مسلمانوں کے قبل از اسلام کی عورت کے متعلق تمام دعوؤں کو جھوٹا ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔ ان وقتوں کی عورتیں مردوں کی جائیداد کی وارث بنتی تھیں جیسا کہ سلمہ، قتیلہ اور خدیجہ کے سلسلہ میں ہے۔ عورتیں اپنی مرضی کی شادی کرتی تھیں۔ اور مادر سری نظام کی طرح جب چاہیں مرد کو چھوڑ سکتی تھیں۔ زمانہ قبل از اسلام کی دو دفعہ بیوہ ہو جانے والی خدیجہ اپنے باپ کی مرضی کے خلاف جا کر اپنے سے پندرہ سال چھوٹے محمدؐ کو شادی کا پیغام بھیج سکتی تھی۔ بعد کے زمانہ میں بھی ایک 53 سالہ بوڑھے کی 6 سالہ بچی سے شادی کا تو سنتے ہیں لیکن ایک عورت کی اپنے سے کم عمر مرد سے شادی کی روایت نہیں ملتی۔ آج اکیسویں صدی میں بھی کوئی ایسی مسلمان عورت سامنے نہیں آئی جس میں اتنی جرأت ہو کہ وہ اپنی شادی کا پیغام خود بھیجے، یا مرد کو جب چاہے گھر سے نکال دے۔ اسلام نے اس کے بر عکس شادی کیلئے ولی کا تصور متعارف کرایا ہے۔ ولی جو ایک مرد ہو گا اور وہ عورت کو کسی مرد کے سپرد کرتا ہے۔ نبی کریم نے جب ہند بنت امیہ (ام سلمہ) سے اپنی شادی کی تو امّ المومنین کے بیٹے کو جو ابھی بچہ تھا ، کہا کہ اٹھو اور اپنی ماں کو میرے نکاح میں دو۔

ان وقتوں کی عورت مردوں کو ملازم رکھتی تھی اور ان کی مدد سے آزادانہ طور پر تجارت کیا کرتی تھی۔ جبکہ آج اکیسویں صدی میں بھی کوئی مسلمان بیوہ یا مطلقہ عورت اپنے طور پر آزادانہ بزنس چلانے کا خواب تک نہیں دیکھ سکتی۔ ان عورتوں نے اپنے شوہروں کا مال و دولت ورثے میں پایا جو اسلامی تعلیمات کے تحت ممکن نہیں ہے۔ نبی کریم کی زندگی میں عورتوں کی وراثت کے حوالے سے کچھ یوں ذکر ہے۔

حضرت سعد بن مالک فرماتے ہیں کہ ان کی بیماری کے دنوں میں رسول کریم انکے پاس تشریف لے گئے، تو انہوں نے خدمت نبوی میں عرض کیا، یا رسول اللہ ، میری صرف ایک ہی لڑکی ہے۔ میں تمام مال و دولت کی وصیت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا، نہیں۔ انہوں نے عرض کیا، آدھے مال کی؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ پھر انہوں نے عرض کیا: پھر ایک تہائی مال کی وصیت کر دیتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا، ایک تہائی، حالانکہ وہ بھی زیادہ ہے۔(سنن نسائی، جلد دوم، کتاب الوصیۃ، حدیث نمبر 3668)۔

جاری ہے